تحریر:ڈاکٹر ایم کے ریحان
موذی مرض کینسر جان لیوا اور موروثی مرض ہے۔ سرطان(کینسر) غیر معمولی خلیات کی بے ترتیب نمو کا نام ہے ۔جو عمومی طور پر ٹیومر(گلٹی) کی صورت میں جسم پر نمودار ہو جاتے ہیں۔ تاہم ہر ٹیومر کینسر نہیں ہوتا۔ پستان کے کینسر کو عام طور پر چھاتی کا کینسر بھی کہا جاتا ہے ،پستان غدود و عضلات پر مشتمل نرم گوشوں اور باریک نالیوں کے مجموعے سے بنا ہو اعضو ہے، اس میں بہت چھوٹے چھوٹے عضو ہوتے ہیں۔کینسر کی بنیادی وجہ تاحال نا معلوم ہے ۔لیکن کلینیکل پریکٹس سے ثابت ہوتا ہے کہ 90 سے 95 ویں صد مریضوں میں انوائرمینٹل فیکٹرز کینسر کی بڑی وجہ ہے۔ جب کہ 5 سے 10 فی صد مریضوں میں یہ مرض موروثی ہوتا ہے۔چھاتی کا کینسر عام طور پر مردوں کے مقابلے میں خواتین سے زیادہ منسوب کیا جاتا ہے۔ لیکن مرد بھی بریسٹ کینسر سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ گو مردوں کی تعداد نسبتاً بہت کم ہوتی ہے۔ تاہم مردوں بریسٹ کینسر کی تشخیص ہو سکتی ہے اور وہ کون سی علامات ہیں۔ جن پر مردوں کو غور کرنا چاہیے۔وہ مرد جنکی عمر 60 سے 70 سال کے درمیان ہے۔ ان میں اس بیماری کے چانس زیادہ ہوتے ہیں ۔ اسکے علاوہ وہ مرد جن میں ایسٹروجن ہارمون کی سطح زیادہ ہوتی ہے۔ان میں بریسٹ سرطان ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔ خواتین کی طرح ہی اگر کسی مرد کے اہل خانہ میں ماضی میں کوئی بریسٹ کینسر سے متاثر ہوا ہو ،تو ان میں کینسر سے متاثر ہونے کے امکانات زیادہ ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ مردوں میں بریسٹ کینسر کے ہر 100 میں سے 10 سے 20 کیسز ناقص جینز کے ذریعے منتقل ہوتے ہیں۔ کینسر ریسرچ یو کے‘ ‘کے مطابق صرف برطانیہ میں ہر سال تقریباً 390 مردوں میں بریسٹ کینسر کی تشخیص ہوتی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں خواتین کی تعداد 54،800 ہے۔
بریسٹ کینسرسے پاکستان میں 80ہزار سے زائد خواتین ہر سال چھاتی کے سرطان میں مبتلا ہوتی ہیں۔(انسٹیٹوٹ آف نیو کلینر میڈیسن اینڈ انکولوجی )۔رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 100 سے زائد خواتین روزانہ موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ سرطان آٹھ خواتین میں سے ایک کو انکی زندگی کے دوران متاثر کرتا ہے۔کینسر ریسرچ یوکے کا کہنا ہے کہ ’خواتین میں بریسٹ کینسر کے 100 میں سے تین کیسز براہ راست ناقص جینز سے منتقل ہوتے ہیں۔پاکستان کے چیریٹی ادارے کنے انکشاف کیا ہے۔ہ بلوغت تک لڑکیوں اور لڑکوں کے چھاتی کے خلیے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ دونوں میں بریسٹ ٹشوز کی ایک جتنی تعداد موجود ہوتی ہے۔ جو کہ نپل اور اریولا ( نپلز کے گرد سیاہ حصہ)کے پیچھے ہوتے ہیں۔ جو چھوٹی ٹیوبز پر مبنی ہوتے ہیں ۔جنکے ارد گرد چربی کے خلیے، رابطہ کار خلیے، خون اور لیمفاٹک نسیں موجود ہوتی ہیں ۔میک ملن کینسر سپورٹ کے مطابق دوران بلوغت لڑکوں کی چھاتیوں میں ویسی تبدیلی نہیں آتی جیسے لڑکیوں میں آتی ہے۔ لیکن لڑکوں کی چھاتیوں کے نپلز میں بھی ایسے خلیے موجود ہوتے ہیں ۔جہاں بریسٹ کینسر پنپ سکتا ہے۔قدرتی طور پرماں کا دودھ باریک نالیوں کے ذریعے پستان کی نپل تک جاتا ہے۔پستان کی اس بنیادی ساخت سے خواتین کی بد احتیاطی ،لاپرواہی ،فیشن ،کی وجہ سے پستان یا چھاتی کا کینسر عام ہوتا جا رہا ہے۔ دینامیں اس وقت ایک محتاط اندازے کیمطابق 10فیصد خواتین اس مرض کا شکار ہیں۔ دنیا میں ہر سال 5 لاکھ خواتین اس موذی مرض کی وجہ سے موت کے منہ میں جارہی ہیں۔جبکہ چارہزار خواتین رحم یا بچہ دانی کے کینسر کا شکار ہورہی ہیں۔کینسر کی علامات میں جسم کے کسی حصے میں ٹیومر کا نمودار ہونا، جسم کے مختلف حصوں سے خون کا بہنا، بناء کسی وجہ کے تیزی سے وزن کا کم ہونا، مسلسل کھانسی رہنا اور خوراک نگلنے میں دشواری کا سامنا کرنا شامل ہیں اگر درج بالا علامات میں دو علامتیں ایک ساتھ واضح ہوجائیں تو کینسر کی تشخیص کا ٹیسٹ کرانا ضروری ہے۔پاکستان میں خواتین میں بریسٹ کینسر اور مردوں میں منہ کے کینسر میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں کینسر میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ سالانہ سے متجاوزہے ۔ گزشتہ ایک دہائی سے کینسر کے مریضوں کی شرح میںمزید اضافہ ہوا ہے ۔پاکستان میں کینسر کے علاج کے کل 27 مراکز ہیں، اس محدود تعداد کو طبی ماہرین کینسر کے مریضوں کے علاج میں بڑی رکاوٹ مانتے ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں کینسر کے مریضوں کے علاج کے لیے سہولیات ناکافی قرار دیا ہے۔ کینسر کے علاج کی سہولیات کی شدید کمی کیوجہ سے سال میں صرف 10 سے 15 ہزار کے قریب مریضوں کا علاج ہی ممکن ہے۔پاکستان میں صحت کے سرکاری اعداد و شمار کے ادارے ہیلتھ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق ملک میں سالانہ کینسر کے پونے دولاکھ کے قریب نئے کیسز سامنے اتے ہیں اور ایک لاکھ مریض جان سے چلے جاتے ہیں۔کینسر کئی قسام ہیں جن میں پھپھڑوں کا کینسر، بریسٹ، منہ، حلق، جگر اور خون کا کینسر عام ہے۔ جسکا علاج نہایت مہنگا اورتکلیف دہ بھی ہوتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق کینسر کی 36 میں سے تقریباً 9 اقسام موروثی ہیں یعنی یہ والدین سے بچوں میں منتقل ہوتی ہیں۔ اگر جسم کے کسی حصے میں بھی ٹیومر نمودار ہو فوری طور پر اپنے معالج سے رجوع کریں۔ رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر سال 75 لاکھ سے زائد ا فراد اس موذی مرض میں مبتلا ہو کر جان کی بازی ہار جاتے ہیں ۔سرطان کے پھیلائو کیلئے انوائرمینٹل فیکٹر میں غیر متوازن غذا، تمباکو نوشی، پان کا بے جا استعمال کے ساتھ انفیکشن اور ریڈیشن کلی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی بیرونی عوامل بھی اس جینیاتی عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ان عوامل میں ماحولیاتی یا فضائی آلودگی، مختلف قسم کے تابکاری، ریڈیائی یا سورج کی شعاعیں، کیمیکلز، آبی اور غذائی آلودگی، زرعی ادویات ، منشیات ،، غذائی اجناس میں پایا جانے والا افلاٹوکسن، مختلف قسم کے وائرل انفیکشنز،فوڈ کیمیکلز اور کلرز، سٹیرائیڈ انجکشن لگے جانور کا گوشت، ساتھ ہی غیر متحرک زندگی، بڑھتی ہوئی عمر، موٹاپا، ناکافی غذائیت سرطان کے پھیلانے کا سبب بن سکتے ہیں۔سرطان جیسی مرض مرض سے بچاؤ کیلئے اگاہی مہمات میں سرگرم تنظیمیںاور مستند ڈاکٹروںطالباو طالبات کی تعلیم تربیت اور اقدامات کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کینسر کے حوالے سے اگاہی دینے اور متاثرہ مریضوں کی مدد اور علاج میں تعاون بڑھانے کا شعور اْجاگر کرنے کیلئے حکومت کو ہر سطح پر تعاون بڑھانا ہو گا اور اسی صورت میں پاکستان میں کینسر جیسے موذی مرض کو شکست دی جاسکتی ہے۔یونانی ،دیسی ،ہیومیوپیتھی اورروحانی طریقہ علاج پاکستان میں مقبول ہیں۔ الحمداللہ! روحانی علاج خصوصاً قران مجید کی’’ سورۃ الرحمن‘‘ کاپڑھنا،سننا اور پانی دم کر کے پینے اللہ کے فضل وکرم سے کئی مریض صحت یاب ہوئے ہیں۔
عورتوں میں چھاتی کے کینسر کی وجوہات میں اپنے پستان کی جسامت سے کم سائز کے بریزئیر کا استعمال، جسکے استعمال سے برسٹ کے اندر زخم بن جاتے ہیں۔ سیاہ رنگ اور نائلون کا برئزیر بھی اسکا سبب بن سکتا ہیبریزئیر ڈھیلا پہننے کے ساتھ قمیض بھی تنگ نہ پہنیں۔ڈاکٹر ز کے مطابق رات کوبریزئیر اتار کر نہ سونا،بریزئیر کا تنگ ہونا اور زیر جامہ کا تنگ پہننا ،اس کی صفائی کا خیال نہ رکھنا خود کشی کے مترادف ہے۔جو خواتین اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلاتی ہیں، ان کو بریسٹ کینسر کم ہوتا ہے بہ نسبت ان خواتین کے جو بچوں کو دودھ نہیں پلاتیں۔کینسر سے محفوظ رہنے کیلئے خواتین اپنے شیر خوار بچوں کو اپنا دودھ پلائیں۔اللہ کریم اس موذی او ر جان لیوا مرض سے ہر انسان کو بچائے۔آمین،ثم آمین ۔