Trending Now

ڈراموں میں تھپڑ مارنے میں کوئی مضائقہ نہیں، یاسر حسین

آئے روز اپنے بیانات کی وجہ سے سوشل میڈیا پر تنازع کا شکار ہونے والے اداکار اور ہدایت کار یاسر حسین کا کہنا ہے کہ ’ڈرامے کی کہانی میں اگر کہیں تھپڑ مارنا ضروری ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔‘

حال ہی میں یاسر حسین نے دی ٹاک ٹاک شو میں شرکت کی جہاں انہوں نے ڈراموں کے حوالے سے گفتگو کی۔

پروگرام کے دوران ایک سیگمنٹ میں میزبان حسن چوہدری نے ڈراموں میں تھپڑ مارنے سے متعلق گفتگو کی تو یاسر حسین نے لاعلمی اور حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’کیا اب بھی ڈراموں میں تھپڑ مارنے کے سین ہوتے ہیں؟‘ جس پر میزبان نے کہا کہ ’آپ تو ایسے کہہ رہے ہیں جیسے ہم ناروے شفٹ ہوگئے ہیں۔‘

یاسر حسین نے کہا کہ ’پہلی بات یہ کہ ناروے میں پاکستانی ڈرامےدیکھے جاتے ہیں اور دوسری بات یہ کہ میں ڈرامے دیکھتا نہیں ہوں۔‘

پاکستانی ڈرامے نہ دیکھنے کے سوال پر اداکار نے مزید کہا کہ ’میں نے حیرانی کا اظہار اس لیے کیا کیونکہ جب میں دریچہ (2011) ڈراما کررہا تھا اس میں بھی تھپڑ مارنے کے بہت سین ہوتے تھے، میں نے خود بھی 6،7 تھپڑ مارے تھے، وہ میرا پہلا ڈراما تھا، اگر آج بھی ڈراموں میں تھپڑ مارے جارہے تو بتائیں میں کیوں دیکھوں؟‘

جس پر میزبان حسن چوہدری نے یاسر حسین کو یاد دلایا ان کا گزشتہ سال کا ڈراما ’ایک تھی لیلیٰ‘ میں بھی تھپڑ مارنے کا سین تھا۔ جس پر یاسر حسین نے کہا کہ ’جی وہ کہانی کے لحاظ سے اس سین میں تھپڑ مارنا ضروری تھا‘۔

یاسر حسین نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ’آج کل کے ڈراموں میں بلاوجہ اور بہت سارے تھپڑ مارنے کے سین ہوتے ہیں، کہانی میں اگر کہیں تھپڑ مارنا ضروری ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے مگر ڈراموں میں بیک گراؤنڈ میوزک لگا کر تھپڑ مارنا اور سنسنی پھیلانا بلاوجہ کی بات ہے۔‘

پاکستان کے ٹی وی ڈراموں میں مرد کردار کی جانب سے خاتون کردار پر تھپڑ مارنے کے سین پر ماضی میں بھی کافی بحث ہوتی رہی ہے۔

اپریل 2023 میں سینئر اداکارہ بشریٰ انصاری نے اس حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ڈراموں میں خواتین کرداروں پر تشدد کے مناظر دکھانا افسوس کی بات ہے، اسکرین پر تشدد صرف جرائم پیشہ کرداروں تک محدود ہونا چاہیے۔

بشریٰ انصاری کے مطابق انہیں اداکاری کرتے وقت اس وقت سب سے زیادہ تکلیف یا مشکلات پیش آتی ہیں جب ان کے سامنے تھپڑ رسید کرنے کا کوئی منظر شوٹ کیا جاتا ہے۔

بشریٰ انصاری نے کہا تھا کہ چوں کہ تشدد والے کردار بھی ان ہی کے لیے لکھے جاتے ہیں اور وہ انہیں نبھانے کے پابند ہوتے ہیں، اس لیے وہ ایسے کردار بھی ادا کرلیتے ہیں لیکن انہیں امید ہے کہ ایک دن ٹی وی پر تبدیلی آئے گی۔

Read Previous

دنیا کا خطرناک آرٹ فیسٹیول جہاں صرف بالغ افراد ہی شرکت کرسکتے ہیں لائف اینڈ اسٹائل ڈیسکاپ ڈیٹ 20 ستمبر 2023 FaceBook Twitter WhatsApp —فوٹو: دی آبزرور/ دی گارجین برطانیہ کے معروف اور تاریخی آرٹ میوزیم میں دنیا کے خطرناک ترین آرٹ فیسٹیولز میں شمار ہونے والی نمائش کا آغاز ہوگیا جو رواں برس کے اختتام تک چلتی رہے گی۔ برطانوی اخبار ’دی گارجین‘ کے مطابق مذکورہ فیسٹیول 23 ستمبر 2023 سے یکم جنوری 2024 تک جاری رہے گا اور اس دوران 42 آرٹسٹ دنیا کے منفرد، پیچیدہ اور خطرناک آرٹ کو پیش کریں گے۔ مذکورہ فیسٹیول برطانیہ کے ’رائل اکیڈمی‘ میں ’آرٹ ایگزبیشن‘ کے تحت ہوگا اور اس میں صرف بالغ افراد کو ہی آنے کی اجازت ہوگی، تاہم 16 سال کے عمر افراد اپنے بالغ دوستوں یا رشتے داروں کے ہمراہ نمائش میں شرکت کر سکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مذکورہ آرٹ فیسٹیول کے دوران پرفارمنس پیش کرنے والے آرٹسٹوں کی دیکھ بھال کے لیے جہاں سیکیورٹی عملہ موجود ہوگا، وہیں ڈاکٹر، نفسیاتی ماہر اور غذائی ماہر بھی موجود ہوں گے۔ مذکورہ فیسٹیول کو ’مرینا ابراوک آرٹ فیسٹیول‘ کا نام دیا گیا ہے اور اس دوران نوجوان لڑکیاں اور لڑکے مختلف نوعیت کے منفرد آرٹ پیش کریں گے۔ مرینا ابراوک خود ’رائل اکیڈمی‘ میں 50 سال تک آرٹ پیش کرتی رہی ہیں اور اس دوران ان کے ساتھ انتہائی خطرناک اور نامناسب واقعات بھی پیش آ چکے ہیں اور اب وہ اپنے ساتھ ہونے والے واقعات کو آرٹ کی شکل میں پیش کرنے جا رہی ہیں۔ مذکورہ فیسٹیول کس طرح خطرناک ہے؟ —فوٹو: رائل اکیڈمی مذکورہ فیسٹیول میں شرکت کے لیے آنے والے تمام افراد کو دو برہنہ آرٹسٹوں کے درمیان سے گزر کر اکیڈمی میں داخل ہونا ہوگا۔ فیسٹیول کے شائقین کو خوش آمدید کہنے کے لیے ایک مرد اور ایک خاتون آرٹسٹ کو مرکزی گیٹ پر بے لباس کھڑا کیا جائے گا اور وہ ایک دوسرے کے انتہائی قریب ہوں گے اور آنے والے افراد کو مذکورہ دونوں آرٹسٹس کے درمیان سے گزر کر آنا ہوگا۔ اس دوران کسی بھی شخص کو برہنہ مرد یا خاتون کو چھونے کی اجازت نہیں ہوگی اور نہ ہی کوئی ان کی ویڈیو ریکارڈ کرپائے گا اور نہ ہی کسی کو تصویر کھینچنے کی اجازت ہوگی۔ اکیڈمی کے اندر بھی مختلف آرٹسٹ بے لباس ہوں گے جو کسی نہ کسی آرٹ کو پیش کر رہے ہوں گے۔ اکیڈمی نے پہلے ہی وضاحتی بیان میں واضح کیا ہے کہ مذکورہ آرٹ فیسٹیول بہت سارے افراد کی دل آزاری کا سبب بن سکتا ہے اور بہت سارے لوگ وہاں پہنچنے کے بعد غصے میں آ سکتے ہیں، اس لیے وہاں نابالغ شخص کا داخلہ ممنوع ہے جب کہ کسی کو بھی وہاں غصہ دکھانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ مذکورہ فیسٹیول کے دوران بعض خواتین آرٹسٹوں کو بے لباسی میں سائیکل پر بیٹھتے ہوئے دکھایا جائے گا جب کہ بعض خواتین کو سلیب پر لٹکا دکھایا جائے گا۔ اسی طرح کچھ خواتین کو بے لباسی کی حالت میں انسانی خون آلود اعضا کے ساتھ دکھایا جائے گا جب کہ بعض خواتین کو مردہ انسانوں کے ڈھانچوں کے ہمراہ ننگا دکھایا جائے گا۔ خواتین کی طرح مرد آرٹسٹ بھی برہنہ موجود ہوں گے اور بعض آرٹسٹ گھنٹوں تک ایک ہی جگہ پر خاموشی سے بیٹھے یا کھڑے رہیں گے اور انہیں کچھ کھانے کی اجازت بھی نہیں ہو گی، البتہ انہیں کئی گھںٹوں بعد پینے کے لیے صرف پانی دیا جائے گا۔ اسی طرح آرٹ فیسٹیول کو دیکھنے کے لیے آنے والے افراد کی چیکنگ کی جائے گی اور انہیں سختی سے موبائل فون سمیت دیگر آلات استعمال نہ کرنے کی ہدایت کی جائے گی۔ علاوہ ازیں کسی بھی 16 سال کے کم عمر شخص کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہوگی جب کہ اندر کسی کو آرٹسٹ کو چھونے کی اجازت نہیں ہوگی۔ آرٹسٹوں کو اگر کسی بھی شخص نے چھونے، مارنے یا ان کی تصویر نکالنے کی کوشش کی تو وہاں موجود سیکیورٹی عملہ ایسے افراد کو پکڑ کر باہر لے جائے گا۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ اسی طرح کے آرٹ شو ’رائل اکیڈمی‘ میں کئی سال سے وقتاً فوقتاً ہوتے آئے ہیں اور اس بار ماضی میں پیش کیے گئے تمام آرٹوں کو ایک ہی فیسٹیول میں پیش کیا جا رہا ہے اور فیسٹیول کا ٹکٹ پاکستانی 10 ہزار روپے تک رکھا گیا ہے۔ رائل اکیڈمی میں مرینا ابراوک 50 سال تک مختلف طرح کے برہنہ آرٹ پیش کرتی رہی ہیں اور انہوں نے ایک بار ٹیبل پر بے لباس ہوکر آنے والے شائقین کو دعوت دی تھی کہ وہ ان کے ساتھ آرٹ کو بہتر بنانے کی چیزیں کر سکتے ہیں۔ مرینا ابراوک کی جانب سے شائقین کو اجازت دیے جانے کے بعد بعض شائقین نے ان کے جسم پر بلیڈ اور ریزر چلا دیے تھے جب کہ کچھ لوگوں نے ان کے ساتھ نامناسب حرکتیں کی تھیں۔

Read Next

فلسطینی شہریوں کے اکاؤنٹ کے بائیو میں ’دہشت گرد‘ لکھنے پر انسٹاگرام نے معافی مانگ لی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *