حالیہ دنوں میں بہت سے ایسے واقعات رونما ہوئے جس میں مریضوں کو اے واسٹن انجیکشن مختلف صورتوں میں استعمال کروایا گیا جس سے ان کی بینائی ختم ہو گئی۔
ڈریپ کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں اس دوائی کی آنکھوں کے علاج کے لیے استعمال کی منظوری نہیں دی گئی تھی اور اے واسٹن انجیکشن ایم ایس جینیس ایڈوانسڈ فارما سوٹیکل لاہور نے غیر معیاری طریقے سے انجیکشن تیار کر کے تقسیم کیے جب کہ اس فرم کے پاس ڈرگ سیل لائسنس بھی نہیں تھا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اے واسٹن ایک رجسٹرڈ دوا ہے جو روش فارما تیار کرتی ہے اور یہ دوا معدے اور بڑی آنت کے کینسر کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔‘
’تاہم ذیابیطس کے مریضوں کی آنکھوں کے پردے پر خون کے ذرات اکٹھے ہونے کی صورت میں اس کا آف لیبل استعمال کیا جاتا ہے۔‘
ذیابیطس کے ایسے مریضوں میں یہ دوا ڈائلیوٹڈ (کم مقدار) دینے کی غرض سے دوبارہ پیک کی گئی اور کم طاقت کے انجیکشن بنائے گئے۔ ڈائلیوشن اور ری پیکنگ کا عمل مضر صحت حالات میں ہوا جس کی وجہ سے مریضوں کی بینائی متاثر ہوئی۔
ڈریپ الرٹ کے مطابق ’اے واسٹن 100 ملی گرام انجیکشن کے تین بیچ جو کہ ایم ایس راش فارما کراچی نے امپورٹ کیے ہیں، کو مشتبہ پایا گیا ہے، اس لیے اس رجسٹرڈ دوائی کے امپورٹر کو ہدایات دی گئی ہیں کہ اے واسٹن انجیکشن کے مشتبہ بیچز کو فوری طور پر مارکیٹ سے اٹھا لیا جائے اور اس کی تقسیم لیبارٹری ٹیسٹنگ کے رزلٹ آنے تک روک دی جائے۔‘
ادھر نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی کا کہنا ہے کہ ’اے واسٹن انجیکشن کے نمونے ٹیسٹ کے لیے بھیجے گئے ہیں ان کی رپورٹ 10 سے 12 دن میں آئے گی جس کے بعد ہم اس بات کا تعین کر سکتے ہیں کہ ذمہ دار کون ہیں۔‘
پیر کو میو ہسپتال لاہور کے دورے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نگران وزیر اعلیٰ کا مزید کہنا تھا کہ ’انجیکشن لگنے سے لوگوں کی بینائی جانا انتہائی افسوس ناک ہے۔ ہماری کوتاہی یہ ہےکہ ہمارے ڈرگ انسپیکٹر نے اسے بکنے کیوں دیا؟
انہوں نے ہیلتھ سیکریٹری اور وزیر صحت سے سوال کیا کہ ’انجیکشن کا سارا عمل نجی ہسپتالوں میں ہو رہا تھا اس وقت ہمارا ہیلتھ کیئر کمیشن کہاں تھا؟ اس کو بھی جواب دینا پڑے گا اور ڈرگ انسپکٹر کو بھی جواب دینا پڑے گا۔‘
اس سے پہلے پنجاب کے نگران وزیر صحت ڈاکٹر جمال ناصر نے اتوار کو کہا تھا کہ ’حکومت نے عوام اور ڈاکٹروں کو آنکھوں کی بینائی کو مبینہ طور پر متاثر کرنے والے انجیکشن کے استعمال سے روک دیا ہے۔‘
اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران صوبائی وزیر صحت کا کہنا تھا کہ ’میڈیکل سٹورز، ہول سیلرز اور ڈسٹری بیوٹرز کو بھی اس انجکشن کی فروخت سے روک دیا ہے۔‘
صوبائی وزیر صحت نے اس معاملے کے حوالے سے ایک پانچ رکنی تحقیقاتی کمیٹی بھی بنائی ہے جو چند روز میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی جبکہ اس حوالے سے تھانہ فیصل ٹاؤن میں دو افراد کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے۔
مقدمہ ڈپٹی ڈرگ کنٹرولر لاہور حافظ عالم شیر کی مدعیت میں دو افرد کے خلاف درج کیا گیا ہے جن میں سے ایک جعلی دوا ساز ادارے کے مالک اور دوسرے ان کے ساتھی ہیں۔
ایف آئی آر کے مطابق قصور کے ڈرگ کنٹرولر نے ڈرگ کنٹرولر آفس لاہور میں شکایت کی کہ ’انجیکشن اے واسٹن (Avastin) جو کہ مرکزی ملزم نے سپلائی کیا تھا، اس کی وجہ سے اینڈوفیلمائٹس (Endophthalmitis) نامی آنکھوں کی مہلک بیماری متعدد مریضوں میں ہو رہی ہے۔‘
ایف آئی آر کے مطابق ’اس شکایت پر ڈرگ آفس کی ایک ٹیم سائرہ میموریل ہسپتال ماڈل ٹاؤن لاہور کی تیسری منزل پر قائم ایک غیر قانونی مینیوفیکچرنگ یونٹ پر معائنہ کے غرض سے گئی جہاں ملزم موجود نہ تھے۔‘
پولیس کے مطابق ’ٹیم نے ہسپتال کی انتظامیہ سے رابطہ کیا جس پر وہاں کے ایڈمن مینیجر نے غیر قانونی یونٹ کا معائنہ کروایا۔‘
ایف آئی آر میں بتایا گیا ہے کہ ’دوران معائنہ ہسپتال کے ایڈمن مینجر سے ادویات کی تیاری کے لائسنس کے بارے میں پوچھا گیا اور واقعے کی پڑتال کرتے ہوئے ڈرگ ایکٹ 1976، ڈریپ ایکٹ 212 کی خلاف ورزی پاتے ہوئے موقع پر موجود شخص کے سامنے ایک ریکارڈ مرتب کیا گیا اور وہاں پر موجود غیر قانونی طور پر تیار کی جانے والی غیر رجسٹرڈ ادویات بشمول انجیکشن اے واسٹن کو قبضے میں لے لیا گیا۔‘
اے واسٹن انجیکشن کب اور کیوں استعمال ہوتا ہے؟
لاہور میں ایک سرکاری ہسپتال کے آنکھوں کے شعبے کی رجسٹرار ڈاکٹر سعدیہ امتیاز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’آنکھوں کے ایسے مریض جو کہ ذیابیطس میں مبتلا ہوں ان کی آنکھوں کے پردے کے آگے خون کے ذرات آ جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی بینائی متاثر ہوتی ہے۔‘
’اس کے لیے مارکیٹ میں مختلف فارمولے دستیاب ہیں جو ایف ڈی اے کے منظور شدہ ہیں لیکن ان کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی قیمت ایک لاکھ روپے سے بھی زیادہ ہے ایسے مریضوں کو ایک ایک مہینے کے وقفے سے کم از کم تین انجیکشن دینے ہوتے ہیں جو کہ عام مریض کی پہنچ سے باہر ہوتے ہیں۔‘
’ایسی صورت میں اے واسٹن انجیکشن کا مشورہ دیا جاتا ہے جس کا ایک انجیکشن 1200 سے 1500 روپے میں ملتا ہے کیوں کہ یہ صفر اعشاریہ پانچ ملی لیٹر سے ایک ملی لیٹر تک کی مقدار میں ہوتا ہے۔‘
-
اکٹر سعدیہ امتیاز کا کہنا تھا کہ ’یہی انجیکشن بڑی آنت کے کینسر کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے لیکن اس میں دوا کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم مریضوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ انجیکشن خود لے آئیں اور بہت سے مریض ایسی جگہوں سے یہ انجیکشن لیتے ہیں جہاں کینسر کے علاج کی ادویات دستیاب ہوں۔‘
ڈاکٹر سعدیہ امتیاز نے بتایا کہ ’دیگر مہنگے انجیکشنز رجسٹرڈ ڈسٹری بیوٹرز فراہم کرتے ہیں جبکہ اے واسٹن 100 ملی لیٹر کی پیکنگ میں آتا ہے اور مقامی ڈسٹری بیوٹر اس میں سے مطلوبہ مقدار سرنج میں فراہم کر دیتے ہیں۔‘
ڈاکٹر سعدیہ نے اس بات کا خدشہ بھی ظاہر کیا کہ ’اس عمل کے دوران دوا کی کولڈ چین متاثر ہوئی ہو یا پھر جراثیم کشی کا عمل جس کی وجہ سے مریضوں پر دوا کا اثر الٹا پڑ گیا اور مریضوں کو آنکھ کی مہلک بیماری ہو گئی ہو۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس بیماری میں مریضوں کی آنکھ کے پیچھے کی رگیں انفیکشن کا شکار ہو جاتی ہیں جس سے ان کی بینائی متاثر یا ختم ہو جاتی ہے۔‘
کیا بینائی واپس آسکتی ہے؟
اس حوالے سے ڈاکٹر سعدیہ کا کہنا تھا کہ ’یہ صورت حال ہر مریض کے لیے مختلف ہو سکتی ہے اگر انفیکشن بہت زیادہ ہو یا پرانا ہو جائے تو بینائی واپس نہیں آتی اور اگر انفیکشن حال ہی میں ہوا ہو اور اس کی تشخیص ہو جائے تو بینائی واپس آںے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔‘
اس خبر پر روش فارما کے موقف کے لیے ان سے رابطہ کیا گیا لیکن تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ روش فارما کی طرف سے موقف موصول ہونے پر شامل اشاعت کر دیا جائے گا۔