سپییم کورٹ میں انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر سپریم کورٹ بار سے استفسار کیا کہ صدر مملکت نے انتخابات کی تاریخ نہیں دی تو ہم کیا کریں؟ کیا ہم صدر مملکت کو تاریخ نہ دینے پر نوٹس دیں؟عابد زبیری نے کہا کہ صدر مملکت کو استثنیٰ حاصل ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ صدر مملکت کے خلاف ہم کیا کر سکتے ہیں،آپ اپنی رٹ بحال کرنے کیلئے حکم جاری کر سکتے ہیں،اگر کوئی آئین کی خلاف ورزی کر رہا ہے تو آرٹیکل 6 لگے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمیں کیا دستاویز دے رہے ہیں، صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ میں 2017 کی مردم شماری کی دستاویز دے رہا ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ 2017 کے بعد مردم شماری شروع کرنے میں کتنے سال لگے؟2021 میں مردم شماری کا دوبارہ آغاز ہوا،چیف جسٹس نے عابد زبیری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ دوسری بار غلط بیانی کر رہے ہیں،آپ عدالت کو غلط حقائق بتا رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک چیز منسوخ ہو گئی تو اس کا ذکر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ 2017میں فیصلہ ہوا تو مردم شماری کا عمل 6 سال بعد کیوں شروع نہ ہوا؟ کس نے مردم شماری کا آغاز تاخیر سے کیا؟آپ حقائق پر مقدمہ نہیں چلا رہے، بلدیاتی انتخابات آئینی تقاضا تھے،عابد زبیری نے کہا کہ اپریل 2022میں ایک حکومت ختم ہوئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو اتنی تشویش تھی تو 2017سے درخواست دائر کیوں نہیں کی، اب جب مردم شماری ہو گئی تو آپ کہہ رہے ہیں مردم شماری غلط ہوئی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا مردم شماری انتخابات کیلئے ضروری ہے؟جو بھی مردم شماری میں تاخیر کے ذمہ دار ہیں انہیں ذمہ دار ٹھہرایا جائے،کیا آپ چاہتے ہیں کہ انتخابات کرائے جائیں،عابد زبیری نے کہا کہ ہم اتنی ہی بات چاہتے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ آپ کی ساری استدعا مردم شماری کے بارے میں ہے، کیا آپ آئین کے آرٹیکل 224 کی عملداری مانگ رہے ہیں، عابد زبیری نے کہا کہ جی ہاں عدالت سے میری یہی استدعا ہے ،جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ 90 دن کب پورے ہو رہے ہیں،عابد زبیری نے کہا کہ 3 نومبر 2023 کو 90 دن پورے ہو جائیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آج ہم حکم دیں کہ 90 دن میں انتخابات ہوں تو کیا انتخابات ہو سکتے ہیں؟عابد زبیری نے کہا کہ اگر آج عدالت حکم دے تو 3نومبر کو انتخابات نہیں ہو سکتے،چیف جسٹس نے کہا کہ پھر اپنی درخواست میں ترامیم کر لیں۔