یہ2017 ء کی بات ہے، طبیعت خراب ہونے پر ڈاکٹروں کو دکھایا تو یہ افسوس ناک تشخیص ہوئی کہ میرے سالے، امتیاز الرحمن جگر کے کینسر میں مبتلا ہیں۔ لاہور اور اسلام آباد میں واقع کینسر ہسپتالوں سے علاج کرایا مگر افاقہ نہ ہو سکا۔
معالجین کا کہنا تھا کہ اس کیفیت کا واحد علاج جگر کی پیوند کاری یعنی ٹرانسپلانٹیشن ہے۔ پورے خاندان نے کوشش کی کہ کہیں سے صحت مند جگر مل جائے مگر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ امتیاز صاحب اگلے سال اپنے چار بچوں، بیگم اور ہم سب کو روتا چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوئے۔
اسی طرح میری پھپھو کی بیٹی کے شوہر جوانی ہی میں گردوں کی بیماری کا نشانہ بن گئے۔ ان کے خراب گردے نکال کر بھائی کا گردہ لگایا گیا۔ مگر ہر ہفتے انھیں ڈائلائسیز کرانا پڑتا ہے تاکہ ایک گردے پہ زیادہ بوجھ نہ پڑے اور وہ کام کرتا رہے۔
ہم سبھی کو کبھی نہ کبھی ایسے وقت سے پالا پڑتا ہے جب اپنا کوئی پیارا شدید بیماری کے باعث اپنے گردے، دل، جگر یا پھیپھڑے خراب کر بیٹھتا ہے۔ یہ انسانی بدن کے اہم اعضا ہیں۔ ایک بھی کام کرنا چھوڑ دے تو انسان چل بستا ہے۔
علاج کرایا جاتا ہے مگر اکثر اوقات زندگی بچانے کے لیے واحدحل یہی رہ جاتا ہے کہ ناقص عضو تبدیل کر دیا جائے۔ لیکن صحت مند عضو آسانی سے نہیں ملتا۔ عموماً اہل خانہ یا عزیز واقارب میں سے کوئی یہ عضو دان کرتا ہے۔ عضو مل جائے تب بھی اگلے مراحل دشوار گذار ہوتے ہیں۔ پہلا مشکل مرحلہ یہی ہے کہ مریض کا جسم نئے عضو کو قبول کر لے۔
اسے آمادہ کرنے کی خاطر مریض کو مختلف دوائیں کھلائی جاتی ہیں۔ عضو کی کامیاب پیوند کاری ہو جائے تب بھی بعض ادویہ عمر بھر کھانا پڑتی ہیں۔ غرض اعضا کی پیوند کاری ایک بڑا مشکل اور کٹھن عمل ہے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال لاکھوں مریض بروقت تندرست عضو نہ ملنے کی وجہ سے چل بستے ہیں۔ یوں وہ اپنے پیاروں کو دکھ وغم میں ڈوبا چھوڑ جاتے ہیں۔ یہ سانحہ کئی جیتے انسانوں کو توڑ دیتا ہے اور وہ برسوں تک سنبھل نہیں پاتے۔ امریکا میں اب سائنس داں، ڈاکٹر اور ادویہ ساز کوشش کر رہے ہیں کہ ایک نیا عمل اپنا کر دنیا میں نئے اعضا کی کمی دور کر دی جائے تاکہ لاکھوں کروڑوں انسانوں کی قیمتی زندگیا ں بچائی جا سکیں۔
یہ عمل اصطلاح میں ’’بیگانہ پیوند کاری‘‘ (Xenotransplantation) کہلاتا ہے۔ اس عمل کے ذریعے جانور کا کوئی عضو انسانی جسم میں لگایا جاتا ہے۔ یہ واضح رہے کہ انسانوں میں اہم اعضا کے علاوہ آنکھ کے قرنیے، رحم، آنتوں، تھائمس، ہڈیوں، خون کی شریانوں و وریدوں، نسوں، جلد اور دل کے والو کی بھی پیوند کاری ہوتی ہے۔
دلچسپ بات یہ کہ بیگانہ پیوند کاری کا باقاعدہ آغاز ہندوستان میں 1886ء اور 1887ء کے دوران ہوا۔ اس وقت ایک برطانوی ڈاکٹر، کینڈل (HWM Kendall) بنگال میں کام کر رہے تھے۔ انہی دنوں السر کی وجہ سے کچھ مردوں کی ٹانگوں کی جلد خراب ہو گئی۔ ڈاکٹر کینڈل نے پھر مینڈکوں سے جلد اتاری اور انسانی ٹانگوں میں لگا دی۔ یہ تجربہ کامیاب رہا۔ یوں بیگانہ پیوند کاری کا سلسلہ چل پڑا۔
1960ء کے عشرے میں یورپ و امریکا میں چیمپنزی اور ببون بندروں سے دل، جگر اور گردے نکال کر انسانوں میں لگائے گئے۔ کچھ انسان تو جلد ہی مر گئے، بعض چند ماہ زندہ رہے۔ پھر چھوت (انفیکشن) یا مدافعتی نظام کی کسی خرابی نے انھیں موت کے منہ میں پہنچا دیا۔ پیوند کاری کو ناکام بنانے میں انسانی مدافعتی نظام کا بنیادی کردار ہے۔ اس کا چھوٹا سا حملہ بھی نئے عضو میں خرابی پیدا کر کے اسے ناکارہ بنا دیتا ہے۔
اگلے دو عشروں میں مدافعتی نظام کو دبانے والی ادویہ (Immunosuppressive drugs) ایجاد ہو گئیں۔ ان کی مدد سے 26 اکتوبر 1984ء کو بارہ دن کی ایک امریکی بچی، بے بی فا (Baby Fae) کو ببون کا دل لگایا گیا۔ وہ اکیس دن زندہ رہی۔ بعد ازاں بچی کے مدافعتی نظام میں خرابیاں جنم لینے سے وہ چل بسی۔
اب سائنس دانوں کو احساس ہوا کہ مدافعتی نظام کو دبانے والی ادویہ بنانا کافی نہیں، انھیں ایسی تکنیکیں درکار ہیں جو انسانوں اور حیوانوں میں ایسے جین (genes) ختم کر دیں جو بیگانہ پیوند کاری کے بعد انسانی جسم اور مدافعتی نظام میں متفرق خرابیاں پیدا کر کے سارا منصوبہ ٹھپ کر دیتے ہیں۔
اس دوران ہی ماہرین طب کی توجہ خنزیر پہ مرکوز ہو گئیں۔ وجہ یہ ہے کہ اس جانور کے اعضا جسامت میں انسانی اعضا سے ملتے جلتے ہیں۔ اس جانور کو پالنا آسان ہے لہذا ضرورت کے وقت اس کا عضو فوراً مل جاتا ہے۔
رفتہ رفتہ جینیاتی انجیئرنگ نے ترقی کر لی اور حیوان کے جسم میں مطلوبہ جینز میں ردوبدل (ایڈیٹنگ)کرنے کے طریقے دریافت ہو گئے۔ چناں چہ امریکا میں کچھ کمپنیاں ایسے خنزیز پالنے لگیں جن کے اعضا کے جینز میںضرورت پڑنے پر ردوبدل کیا جا سکے۔
مقصد یہ تھا کہ ان کے اعضا انسانی جسم کا مدافعتی نظام قبول کر لے اور کوئی خرابی پیدا نہ کرے۔ گو خنزیز بھی آئیڈیل جانور نہیں۔ وجہ یہ کہ یہ جانور اوسطاً ستائیس اٹھائیس سال زندہ رہتا ہے۔ لہذا بعض سائنس دانوں کو خیال ہے کہ اس کے اعضا کی عمر انسانی اعضا سے کم ہو گی کہ انسان کی اوسط عمر کافی زیادہ ہے۔
امریکا میں ریویکور (Revivicor) نامی بایوٹکنالوجی کمپنی کے ماہرین نے آخرکار 2020 ء میں خنزیز کاایسا دل تیار کر لیا جسے انسانی دل کی جگہ لگایا جا سکتا تھا۔ دونوں دل جسامت میں تقریباً برابر ہوتے ہیں۔ ماہرین نے کیا یہ کہ جینیاتی انجیئرنگ کی مدد سے چھ انسانی جین خنزیر کے دل میں شامل کر دئیے۔
مدعا یہ تھا کہ دل کو انسانی مدافعتی نظام آسانی سے قبول کر لے۔ پھر خنزیر کے دل میں چار جین غیر متحرک کر دئیے گئے۔ایک جین دل کے خلیوں میںموجود شکر کو متحرک کر دیتا تھا جس سے انسانی مدافعتی نظام اسے مسترد کر ڈالتا۔ بقیہ جین بھی اس مستردگی میں اپنا کردار ادا کرتے تھے۔
جینیاتی انجیئرنگ سے وجود میں آنے والا یہ دل پہلے پہل جنوری 2022ء میں ایک امریکی شہری، ڈیوڈ بینیٹ کو لگایا گیا۔ وہ ایک جان لیوا مرض میں مبتلا تھا جس نے اس کا دل ناکارہ بنا ڈالا۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ اسے کسی انسان کا دل نہیں لگ سکتا تھا۔ تبھی فیصلہ ہوا کہ ڈیوڈ کا دل نکال کر اس کی جگہ خنزیر کا جینیاتی تبدیلی والا دل لگا دیا جائے۔
یہ آپریشن امریکی شہر بالٹی مور میں واقع یونیورسٹی آف میری لینڈ میڈیکل سینٹر نامی ہسپتال میں انجام پایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہسپتال میں کارڈیک زینوٹرانسپلانٹیشن پروگرام (Cardiac Xenotransplantation Programme)جاری ہے۔ اس منصوبے کے تحت مختلف جانوروں کی دل انسانوں میں نصب کرنے کے سلسلے میں تحقیق و تجربات جاری ہیں۔ اس پروگرام کے ڈائرکٹر ایک پاکستانی نژاد سرجن، ڈاکٹر محمد محی الدین ہیں۔
ڈاکٹر محی الدین کراچی میں پیدا ہوئے۔ 1989ء میں ڈاؤ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا۔ پھر امریکا چلے گئے۔ وہاں آپ کو یونیورسٹی آف پنسلی وینیا میں ٹرانسپلانٹیشن بائیولوجی کی فیلوشپ مل گئی تھی۔ بعد ازاں آپ انسٹی ٹیوٹ آف تھراپٹکس، ڈریکسل یونیورسٹی میں بون میرو ٹرانسپلانٹیشن کی فیلو شپ پانے میں کامیاب رہے۔
ڈیوڈ بینیٹ کو خنزیر کا دل لگانے والا آپریشن ہسپتال کے مرکزی سرجن، ڈاکٹر بارٹلے گرفتھ نے انجام دیا۔ ڈاکٹر محی الدین دوران سرجری ان کی مدد کرتے رہے۔آپریشن نو گھنٹے جاری رہا تھا۔
ڈیوڈ بینیٹ کو کامیابی سے حیوانی دل لگا دیا گیا۔ وہ پھر دو ماہ زندہ رہا۔ ماہرین سو فیصد حد تک نہیں جان سکے کہ حیوانی دل نے کیوں کام کرنا چھوڑ دیا۔ خیال ہے کہ اس خرابی نے مختلف وجوہ سے جنم لیا، مثلاً: حیوانی دل میں وائرس کی موجودگی، مریض کے جسم میں سوزش بڑھ جانا، مدافعتی نظام کا بہت زیادہ متحرک ہونا اور یہ خیال کہ ڈیوڈ بینیٹ اتنا کمزور و ناتواں ہو چکا تھا کہ دل اس کے جسم سے ہم آہنگ نہ ہو سکا۔
بہرحال اس تجربے سے ماہرین نے یہ قیمتی معلومات حاصل کیں کہ انسانی جسم میں حیوانی دل کیونکر کام کرتا ہے اور وہ کون سی خرابیاں ہیں جو اس کی راہ میں درپیش آ سکتی ہیں۔ ستمبر 2023ء میں ڈاکٹر گرفتھ اور ڈاکٹر محی الدین نے کامیابی سے ایک اور امریکی شہری، اٹھاون سالہ لارنس فاؤسیٹ (Lawrence Faucette) میں جینیاتی تبدیلی سے وجود میں آنے والا خنزیز کا دل لگا دیا۔ وہ اب تک زندہ ہے۔ یہی نہیں، اس کی صحت رفتہ رفتہ بحال ہو رہی ہے۔ لارنس بھی ایک ناقابل علاج دل کی بیماری میں مبتلا تھا۔
ان آپریشنوں سے متاثر ہو کر امریکا، برطانیہ ، جرمنی اور چین میں سیکڑوں طبی سائنس داں جینیاتی انجیئرنگ کے ذریعے حیوانوں کے ایسے اعضا تیار کرنے پہ جت گئے جو انسانوں میں لگائے جا سکیں۔
دراصل انسانی آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے مگر دان کیے گئے اعضا کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو رہا۔ اسی لیے طبی سائنس داں بیگانہ پیوند کاری کی طرف متوجہ ہیں کہ اس کی مدد سے اعضا کی شدید کمی و نایابی دور کی جا سکے۔اس ضمن میں وہ خنزیر کے اعضا پہ خاص تحقیق و تجربات کر رہے ہیں۔
دین اسلام میں خنزیر حرام جانور ہے ۔ لہذا اس کے اعضا بھی عام حالات میں استعمال نہیں کیے جا سکتے۔ فقہا کا مگر کہنا ہے کہ ایک مسلمان کی زندگی کسی صورت بچائی نہیں جا سکے تو ضرورت پڑنے پہ، آخری چارہ کار کے طور پہ اسے اس حیوان کے اعضا لگ سکتے ہیں۔ اس استدلال کا ماخذ درج ذیل قرانی آیات ہیں جن کا مفہوم کچھ یوں ہے:
’’اس نے تم پہ مردار، خون ، خنزیز حرام کیے ہیں، مگر کوئی لاچار ہو جائے اور حد سے نہ گذرے تو کوئی گناہ نہیں۔‘‘(البقرہ 173)
’’اس نے تم پہ مردار، خون ، خنزیز حرام کیے ہیں، مگر کوئی گناہ کیے بغیر بھوک سے مجبور ہو جائے تو بے شک اللہ معاف فرما دینے اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘(المائدہ 3)
’’زمین پہ بے وجہ کسی انسان نے دوسرے کو قتل کر دیا تو گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کر دیا اور جس نے ایک انسان کو زندگی بخشی تو اس نے پوری انسانیت کو زندہ کر دیا۔‘‘(المائدہ 32)
ان آیات سے عیاں ہے کہ شدید مجبوری (فقہی اصطلاح حالت ِ اضطرار) کے عالم میں اللہ تعالیٰ نے حرام اشیا بھی جائز قرار فرمائی ہیں۔ لہذا اگر ایک مسلمان مریض کی زندگی خطرے میں ہے اور اسے بچانے کا کوئی بھی طریق میسرّ نہیں تو ایسی صورت میں اس کو حرام جانوروں کے اعضا لگ سکتے ہیں تاکہ مریض کی زندگی بچا کر پوری انسانیت کو تحفظ دیا جا سکے۔