شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار کی ایم پی او آرڈر کیخلاف کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے کہ کیا 1973 کے آئین میں بھی صدر کے اختیارات کو پرانے نوآبادیاتی اختیارات کے مطابق دیکھا جائے؟
اسلام آباد ہائی کورٹ نے شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار کی ایم پی او آرڈر کے خلاف کیس کی سماعت 21 نومبر تک ملتوی کردی۔ اس کے علاوہ دونوں رہنماؤں کی مزید کسی کیس میں گرفتاری نہ کرنے کے حکم میں 21 نومبر تک توسیع کردی۔
ایم پی او آرڈر سے متعلق ڈی سی کے اختیارات پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دلائل مکمل کرلیے۔ اسٹیٹ کونسل آئندہ سماعت پر دلائل دیں گے۔ عدالت نے حکم دیا ہے کہ آئندہ سماعت پر موجودہ ڈپٹی کمشنر کو اختیارات تفویض کئے جانے سے متعلق دلائل دیں۔ اس متعلق بھی بتائیں کہ ایک نوٹیفکیشن ہوا تو وہ پھر بیس تیس سال کیسے چلتا رہے گا۔
شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار کی ایم پی او آرڈر کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی۔ جسٹس بابر ستار نے کیس کی سماعت کی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل عدالت میں پیش ہوئے۔
اپنے دلائل میں ان کا کہنا تھا کہ پہلی بار 1960 دسمبر میں ایم پی او آیا، سب سے پہلے ویسٹ پاکستان میں ایم پی او کا اطلاق ہوا، پانچ جون 1962 میں اس میں مزید ترمیم کی گئی، جب پہلی بار ایم پی او آیا تو اس وقت اسلام آباد دارالخلافہ نہیں تھا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے ایم پی او آرڈریننس 1960 عدالت میں پڑھ کر سنایا۔ جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ ایم پی او فیڈرل کیپیٹل پر کیسے لاگو ہو رہا ہے، ہم نے صرف اسلام آباد ہی کی حد تک دیکھنا ہے، آپ صرف اسلام آباد کی حد تک ڈی سی کے اختیارات سے متعلق دلائل دیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلے کراچی تھا دارالخلافہ، جب کیپیٹل مرج ہو گیا تو تب معاملہ اسلام آباد آگیا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ ہمیں وہ دکھا دیں جب دارالخلافہ اسلام آباد آیا تو تب کا ایم پی او آرڈریننس کیا تھا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے پاس فی الحال وہ ریکارڈ نہیں ہے۔ وزارت قانون سے مانگا تھا لیکن مل نہیں سکا۔ جسٹس بابر ستار نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سی ڈی اے کے قانون میں کہیں لکھا ہوگا وہاں دیکھ لیں، ہو سکتا ہے وہاں موجود ہو۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہمارا مؤقف ہے کہ جب آرڈیننس آیا اس وقت اسلام آباد دارالحکومت نہیں تھا، میں متعلقہ شق آٹھ پڑھتا ہوں۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ ہم نے دیکھنا ہے کہ ایم پی او کا اطلاق وفاق میں کیسے ہوگا۔ اسلام آباد کا نوٹیفکیشن دکھائیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ بھارت کا وفاقی دارالحکومت 1911 میں کولکتہ سے دہلی منتقل کیا گیا۔ دہلی میں بھی چیف کمشنر کے پاس سابق وفاقی دارالحکومت کے اختیارات تھے۔ اُس وقت گورنر کے احکامات پر چیف کمشنر کی تعیناتی کی جاتی تھی، اب گورنر کی بجائے یہ یار صدر کے پاس ہے۔
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ آج ڈیڑھ سو سال بعد بھی صرف یہی کیا گیا ہے؟ اُس وقت منتخب حکومتیں نہیں تھیں، نوآبادیاتی نظام تھا، کیا 1973 کے آئین میں بھی صدر کے اختیارات کو پرانے نوآبادیاتی اختیارات کے مطابق دیکھا جائے؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ دہلی 1992 تک اسی طرح ریگولیٹ ہوتا رہا اور پھر آئینی ترمیم کی گئی۔ جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ بھارت کو اب چھوڑ دیں، واپس آئیں اور آگے اپنے دلائل دیں۔