ٹی بی( تپ دق) ایک جان لیوا مگر قابل علاج مرض ہے جس سے متعلق مختلف مفروضے زبان زد عام ہیں جو علاج کی راہ میں رکاوٹ کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق ٹی بی (تپ دق) دنیا بھر میں اوسطاً 1.6 ملین اموات کی ذمہ دار ہے، ڈبلیو ایچ او کا اندازہ ہے کہ 2015ء سے 2019ء تک ٹی بی کے عالمی واقعات میں ہرسال تقریباً 2 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے تاہم ٹی بی کی ادویات مزاحم قسم میں تشویش ناک اضافہ بھی دیکھنے میں آیا ہے جس کے بعد سائنس دانوں کو اس قابل علاج بیماری کو ختم کرنے کے لیے اب بھی کئی مراحل طے کرنا ہوں گے۔
ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 4 میں سے 1 شخص کو ٹی بی کا انفیکشن ہے، انفیکشن والے صرف 5-15% لوگوں میں علامات ظاہر ہوتی ہیں لیکن جب کسی کو انفیکشن ہوتا ہے لیکن علامات کا تجربہ نہیں ہوتا، تو اسے مخفی ٹی بی انفیکشن کہا جاتا ہے۔
آج بھی ٹی بی سے منسلک کئی مفروضے قائم ہیں جو کہ بعض اوقات مریض کے علاج میں رکاوٹ بن سکتے ہیں، چند غلط فہمیوں کو درج ذیل تحریر کیا جارہا ہے۔
1) ٹی بی والا ہر شخص متعدی ہے
یہ غلط ہے، ٹی بی میں مبتلا کوئی شخص صرف اس صورت میں انفیکشن منتقل کرسکتا ہے جب اس میں علامات ظاہر ہوں۔
2) ٹی بی جینیاتی ہے
اگرچہ لوگ مانتے تھے کہ ٹی بی والدین سے بچے کو منتقل ہوتی لیکن یہ ایک افسانہ ہے۔
3) ٹی بی کا کوئی علاج نہیں
یہ غلط ہے؛ ٹی بی قابل علاج ہے، مخفی ٹی بی انفیکشن کا علاج اینٹی بائیوٹک isoniazid ہے، ایک فعال انفیکشن والے افراد کے لیے 6-12 ماہ پر مبنی اینٹی بیکٹیریل دوائیوں کا کورس ہے۔
4) ٹی بی صرف کم ترقی یافتہ ممالک میں ہی لوگوں کو متاثر کرتا ہے
یہ بھی ایک افسانوی بات ہے؛ ٹی بی دنیا میں کہیں بھی لوگوں کو متاثر کر سکتا ہے تاہم بعض علاقے ایسے ہیں جہاں ٹی بی زیادہ پایا جاتا ہے۔