اسلام آباد: حکومت کی جانب سے بجلی کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافے کے امکانات ہیں۔
پاکستان کو بجلی کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ کرنا پڑ سکتا ہے اور آئی ایم ایف کی جانب سے گردشی قرضے اور مالیاتی اعداد و شمار پر حکومتی موقف کو تسلیم نہ کیے جانے کے بعد پہلی سہہ ماہی کیلیے 417 ارب روپے کے پرائمری بنجٹ سرپلس پر بھی نظرثانی کرنا پڑسکتی ہے۔
آئی ایم ایف نے اسپیشل انویسٹمنٹ فیسلیٹیشن کونسل کے کردار، اختیارات اور مینڈیٹ پر بھی سوالات اٹھائے ہیں، اور کونسل کے توسیعی کردار اور احتساب سے استشناء پر تحفظات کا اظہار کیا ہے
علاوہ ازیں، حکومت غیر ملکی زرمبادلہ کی خرید وفروخت سے بینکوں کے حاصل کردہ منافعے پر 40 فیصد ٹیکس عائد کرنے پر غور کر رہی ہے، اس اقدام سے ایف بی آر کو 44 ارب روپے کی آمدنی وگی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے، پہلی سہہ ماہی کیلیے گردشی قرضوں کی حد اور مالیاتی خسارے پر پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان کوئی ہم آہنگی نہیں ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے جولائی میں کیے گئے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کو ناکافی قرار دینے کے بعد ایک بار پھر بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان گردشی قرضے 155 ارب روپے تک رکھنے پر اتفاق کیا گیا تھا، لیکن اس وقت گردشی قرضے 292 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کا 417 ارب روپے کا پرائمری بجٹ سرپلس حاصل کرنے کا دعوی قبول نہیں کیا ہے، اب پرائمری بجٹ کے اعداد وشمار پر نظرثانی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے نگران وزیرخزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مالیاتی خسارے کا مسئلہ تقریبا حل ہوچکا ہے، اور اس سے نمٹنے کیلیے ہم نے اسٹریٹجی تیار کرلی ہے، ان سے آئی ایم ایف اور پاکستان کے بتائے گئے بجٹ خسارے میں فرق پر موقف جاننے کی کوشش کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نے ابھی تک اپنے حتمی اعداد و شمار ہمارے ساتھ شیئر نہیں کیے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ رواں مالی سال کیلیے ایف بی آر کے ٹیکس کلیکشن کے ہدف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور یہ 9.415 ٹریلین روپے کی سطح پر برقرار ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے ٹیکس وصولیوں میں کمی کی صورت میں ذرعی صنعت پر ٹیکس لگانے کا کہا ہے۔