اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ جو بھی الزامات ہیں اس کا ٹرائل کورٹ میں ہونا چاہیےُ جیل میں بالکل ٹرائل نہیں ہوسکتا،ملٹری کورٹ کے بارے میں بڑی غلط فہمی ہے،ایک کاغذ کی بنیادی پر ملٹری کورٹ نے 253لوگوُں کو سزا سنا دی جس میں کوئی گواہ نہیں کوئی ثبوت نہیں۔
تفصیلا ت کے مطابق اعتزاز احسن نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جیل میں اندر ٹرائل جتنے ہوئے ہیں وہ ماضی کا قصہ ہے،فئیر ٹرائل کا پراسیس یہ ہے کہ عدالت میں عام شہری کو آنے جانے کی اجازت ہو،آپ ایک آدمی کو سیکیورٹی نہیں دے سکتے اڈیالہ سے جوڈیشل کیمپلیکس تک نہیں لے جاسکتے،ایک آدمی کو سیکیورٹی نہیں دے سکتے تو 24 کروڑ کو کیسے محفوظ کریں گے، عمران خان کا ٹرائل جوڈیشل کمپلیکس میں ہونا چاہیے۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ جو بھی الزامات ہیں اس کا ٹرائل کورٹ میں ہونا چاہیےُ جیل میں بالکل ٹرائل نہیں ہوسکتا،ملٹری کورٹ کے بارے میں بڑی غلط فہمی ہے،ایک کاغذ کی بنیادی پر ملٹری کورٹ نے 253لوگوُں کو سزا سنا دی جس میں کوئی گواہ نہیں کوئی ثبوت نہیں،اگر ملزم کہتا ہے کہ میرا ٹرائل اوپن کرے تو ریاست کے پاس انکار کرنے کا کوئی جواز نہیں،ملٹری کورٹس اغواہ برائے تاوان نہیں بلکہ اغوا برائے بیان پر چل رہی ہے۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ قاضی فائز عیسی بھی عمر عطا بندیال ہی نکلے ہیں،پاکستان میں سیاسی منظر نامے کے حوالے سے کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی،8 مئی کو کس کو معلوم تھا کہ اگلے ہی روز اتنا بڑا جال بچھے گا،15 ،20لوگ کوور کمانڈر ہاؤس کو جلا دیں گے،اتنا بڑا منصوبہ بن جائے گا کیا کوئی سوچ سکتا تھااور ہم بس یہ سوچیں کہ شاید آج بھی 8 مئی ہوں،خاور مانیکا بھی چلے والے محلے سے ہوکر آیا اس لئے ایسا بیان دے ڈالا،جب یہ معاملہ پہلے اٹھا تب اس نے بیوی کی تعریفوں کے پل باندھ دئیے،اب وہ چلے والے محلے سے ہوکر آیا ہے تو ایسا بیان تو بنتا ہے۔