عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق طالبان حکومت کے نائب وزیراعظم مولوی عبدالکبیر آخری بار 4 ستمبر کو منظر عام پر دیکھے گئے تھے جب انھوں نے کابل میں ترک سفیر سے ملاقات کی تھی۔
اس کے بعد سے یاد رہے کہ نائب وزیراعظم مولوی عبدالکبیر نے موسمیاتی تبدیلی، یوم اساتاذہ، قوش تپا کینال کے افتتاح اور پولیس گریجویشن کی تقریب سمیت کسی بھی کابینہ اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی اور نہ ہی انھیں کسی عوامی مقام پر دیکھا گیا تھا۔جب ان کی غیر حاضری پر سوالات اُٹھائے گئے تو جواب میں ڈپٹی پی ایم آفس میں میڈیا ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ حسن حقیار نے بتایا تھا کہ نائب وزیراعظم بیمار تھے اور صحت یاب ہوچکے ہیں اور جلد حکومتی سرگرمیاں شروع کردیں گے۔
تاہم اب طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اعلان کیا ہے کہ نائب وزیر اعظم مولوی عبدالکبیر 3 ماہ علالت کے باعث ذمہ داریاں نہیں نبھا پا رہے ہیں اس لیے وزیر خارجہ امیر خان متقی عارضی طور پر نائب وزیراعظم کا عہدہ بھی سنبھالیں گے۔
اس بیان کے بعد ڈپٹی پی ایم آفس میں میڈیا ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ حسن حقیار نے کہا کہ نائب وزیراعظم مولوی عبدالکبیر علالت کے باوجود اہم فیصلوں میں حکومت کی مشاورت کرتے رہے ہیں اور امید ہے جلد ہی اپنے فرائض انجام دینے واپس آئیں گے۔
نائب وزیراعظم مولوی عبدالکبیر کی تین ماہ سے مسلسل غیر حاضری پر طالبان حکومت پر دباؤ تھا کہ غیر ملکی وفد سے ملاقات میں مولوی عبدالکبیر کی موجودگی سود مند ہوتی ہے اس لیے ان کا ہونا ضروری ہے۔
یاد رہے کہ نائب وزیراعظم مولوی عبدالکبیر نے رواں برس مئی سے جولائی نگراں وزیراعظم کی ذمہ داریاں سنبھالی تھیں تاہم جولائی میں وزیراعظم حسن اخوند نے علالت کے بعد قندھار سے کابل واپسی پر اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں۔
دوسری جانب اب دو ماہ سے وزیراعظم حسن اخوندزادہ کو بھی کسی سرکاری میٹنگ یا اہم مواقع پر نہیں دیکھا گیا۔ جس کے باعث مختلف افواہیں گردش کر رہی ہیں تاہم ترجمان زبیح اللہ مجاہد نے ان تمام افواہوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم اپنی سرگرمیاں معمول کے مطابق انجام دے رہے ہیں۔
ادھر عالمی میڈیا پر یہ افواہ بھی زیر گردش ہے کہ خواتین کی ملازمتوں، لڑکیوں کی تعلیم اور دیگر معاملات میں وزیراعظم اور نائب وزیراعظم کے امیر طالبان سے ان کی سخت گیری کے باعث اختلافات ہیں اور اسی لیے ان دونوں کو حکومت سے غیرفعال کردیا گیا ہے۔
افغانستان میں طالبان حکومت اس وقت عملی طور پر دو حصوں میں بٹ گئی ہے ایک کابل میں بیٹھے رہنماؤں کا گروپ ہے جن میں وزیراعظم اور نائب وزیراعظم بھی شامل ہیں جو معتدل ہیں اور عالمی معاہدے پر عمل درآمد چاہتے ہیں۔
دوسرے گروپ کی جڑیں قندھار میں مضبوط ہیں جہاں مبینہ طور پر امیر طالبان رہائش پذیر ہیں۔ یہ گروپ دین اسلام کی بنیادی باتوں پر کسی قسم کے سمجھوتے پر تیار نہیں اور لڑکیوں کی تعلیم وغیرہ پر عالمی دباؤ کو مسترد کرتا ہے۔
یاد رہے کہ کابینہ کے حال ہی میں ہونے والے دو اہم اجلاس قندھار میں منعقد ہوئے تھے جن کی صدارت وزیراعظم یا نائب وزیراعظم کے بجائے امیر طالبان ہبتہ اللہ اخوندزادہ نے کی تھی۔