ٹک ٹاکرز اور یو ٹیوبرز کی جانب سے شاپنگ مالز میں آنے والی فیملیز کی بلااجازت ویڈیوز بنانے میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
عوامی مقامات خصوصاً شاپنگ مالز اور دیگر کاروباری مراکز میں ٹک ٹاکرز او ر یوٹیوبرز کی طرف سے خریداری کے لیے آنے والے افراد اور فیملیز کی اجازت کے بغیر ان کی ویڈیوز اور تصاویر بنانے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے، جس پر قانونی ماہرین کا کہنا ہے کسی بھی شہری کی بلا اجازت ویڈیو ،تصاویربنانے اورسوشل میڈیا پرشیئر کرنیواے کو 3 سے 5 سال تک سزا اور بھاری جرمانہ ہوسکتا ہے ۔
دوسری جانب ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر ریٹنگ ،لائیکس اور شہرت کے حصول کے لیے ٹک ٹاکرز اور یوٹیوبر دوسروں کی پرائیویسی کا بھی خیال نہیں کرتے۔ سوشل میڈیا پر اکثر ایسی ویڈیوز دیکھنے کو ملتی ہیں جو ٹک ٹاکرز اور یوٹیوبرز کسی شاپنگ مال اور بڑے خریداری مرکز میں ریکارڈ کرتے ہیں، جس میں خریداری کے لیے آنے والی فیملیز خصوصاً نوجوان خواتین سے بات کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جب کہ بعض اوقات وہاں موجود خواتین کی بغیر اجازت ویڈیوز بھی بنالی جاتی ہیں۔
جوہرٹاؤن لاہور میں واقع ایک معروف شاپنگ مال کے منتظمین نے بتایا کہ مال کے اندر کسی کو بھی بغیر اجازت کیمرہ لے کر اندر آنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اگرکسی ٹی وی چینل، یوٹیوبر یا ٹک ٹاکر نے ریکارڈنگ کرنی ہوتی ہے تو وہ مال انتظامیہ سے پیشگی اجازت لیتا ہے اور اس دوران اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ کسی بھی شہری کی کوئی ویڈیو یا تصویر بغیر اجازت نہیں بنائی جائے گی اور کسی شہری کو اس حوالے سے شکایت ہو تو ڈیوٹی پر موجود سکیورٹی کا عملہ فورا کارروائی کرتا ہے۔
شاپنگ مال میں کاروبار کرنے والے رانا نعیم نے بتایا کہ انہوں نے یہاں پرندوں اور ارطغرل غازی ڈراما میں استعمال ہونے والے کاسٹیوم کے ساتھ فوٹو گرافی کا اسٹال لگا رکھا ہے۔ اکثر ٹی وی چینلز کے نمائندے، یوٹیوبرز اور ٹک ٹاکر ز ان کے پاس ویڈیوز بنانے کے لیے آتے ہیں تو اس سے متعلق پہلے انتظامیہ کو تحریری طور پر آگاہ کرتے ہیں اور پھر جن افراد سے بات چیت کرنی ہوتی ہے یا ان کی ویڈیو بنانی ہوتو ان سے بھی اجازت لیتے ہیں۔
ماہرنفسیات فاطمہ طاہر کہتی ہیں کہ یہ بہت اہم معاملہ ہے۔ اس میں ویڈیوز بنانے والوں اور جن افراد کی بغیر اجازت ویڈیوز بنائی جاتی ہیں، دونوں کی نفسیات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ زیادہ تر یوٹیوبرز اورٹک ٹاکرز راتوں رات شہرت اورفیم کے چکر میں شارٹ کٹ اختیار کرتے ہیں۔ اس کے لیے شاپنگ مالز میں آنے والی فیملیز سافٹ ٹارگٹ ہوتی ہیں کیوں کہ سوشل میڈیا پر خواتین کو زیادہ دیکھا اورسنا جاتا ہے۔
دوسری طرف جن کی ویڈیو بغیر اجازت بنائی جاتی ہیں، ان کے لیے کئی مسائل پیداہوسکتے ہیں ۔ خاص طور پر ایسی خواتین جو ممکنہ طور پر اپنے گھر والوں کو بتا کرنہ آئی ہوں،ان کی جب ویڈیو بن جاتی ہے تو وہ ٹراما میں چلی جاتی ہیں ۔ اگر وہ شادی شدہ خاتون ہوں تو ان کی زدواجی زندگی متاثرہوسکتی ہے۔
قانونی ماہرین کے مطابق کسی بھی شہری کی بلااجازت ویڈیوبنانے اورسوشل میڈیا پر شیئر کرنے والے کو 3 سے 5 سال تک سزا اور 50 لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں۔
ایڈووکیٹ سائبرلاز زین علی قریشی نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سائبرکرائم ایکٹ اور پیکا ایکٹ کے تحت کسی بھی شہری کی اس کی اجازت کے بغیر ویڈیو،فوٹوبنانا،اسے سوشل میڈیا پر شیئر کرنا جرم ہے۔ اگرکسی شہری کو اس حوالے سے شکایات درج کروانی ہوتو وہ ایف آئی اے سائبرکرائم ونگ کی ہیلپ لائن اورای میل پر رابطہ کرسکتا ہے۔