عام انتخابات کے بعد تقریباً سارے نتائج سامنے آ چکے ہیں ‘پارٹی پوزیشنز بھی واضح ہو چکی ہیں‘اب قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے باقاعدہ اجلاس سے پہلے پارلیمانی سیاسی جماعتیں باہم مشاورت کر رہی ہیں۔
قومی اسمبلی میں کسی بھی سیاسی جماعت کو سادہ اکثریت حاصل نہیں ہوئی ہے۔ لہٰذا وفاق میںمخلوط حکومت قائم ہو گی‘ اس حوالے سے ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کی رہائش گاہ پر منگل کی شب ایک اہم اجلاس ہوا‘ اس اجلاس میں مسلم لیگ ن ‘پیپلز پارٹی‘ ایم کیو ایم پاکستان ‘استحکام پاکستان پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی کے قائدین نے شرکت کی۔
سیاسی قائدین کی اس بڑی بیٹھک میںمیاں شہباز شریف کووزیراعظم کے لیے مشترکہ امیدوار نامزد کردیا گیا ہے۔ اس اجلاس میں شہبازشریف ، آصف علی زرداری، خالد مقبول صدیقی،گورنر سندھ کامران ٹیسوری ،طارق بشیر چیمہ ،چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور علیم خان نے شرکت کی۔جمعیت علماء اسلام کی اس اجلاس میں کوئی نمایندگی نہیں تھی۔
حکومت سازی کے لیے یہ اب تک کی سب سے بڑی پیش رفت قرار دی جا سکتی ہے کیونکہ اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ تین بڑی پارلیمانی پارٹیوں کے قائدین نے میاں شہباز شریف کو وزیراعظم نامزد کر دیا ہے جب کہ دیگر اتحادی جماعتوں کے قائدین نے بھی اس کی توثیق کر دی ہے۔ چوہدری شجاعت حسین کی رہائش گاہ اسلام آباد پر ہونے والے اس اہم اجلا س کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں شہبازشریف نے صحافیوں کو بتایا کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم ملک کو مسائل سے نکالیں گے، ہمارا معاشی اور دفاعی ایجنڈا مشترکہ ہونا چاہیے۔
ہماری مخالفتیں صرف الیکشن کی حد تک تھیں،آصف زرداری نے ایک بار پھر پاکستان کھپے کا نعرہ بھی لگایاہے۔ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ملک اس وقت بحران سے گزر رہا ہے، ہمارے اختلافات ملک سے زیادہ بڑے نہیں ہیں، اس لیے سب بھول کر ساتھ بیٹھے ہیں۔ ہم نے شہباز شریف کا ساتھ دیا تھا اور آیندہ بھی دیں گے، ہم نے ہمیشہ اپنا وعدہ پورا کیا ہے۔ اگر پاکستان کو مشکلات سے نکالنے کے لیے سیاسی مفادات کو ایک طرف رکھ کر ملک اور ریاست کو بچانے کے لیے اقدامات کریں گے تو ایک سال میں صورت حال بہتر ہوسکتی ہے۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے بلوچستان عوامی پارٹی کی نمایندگی کرتے ہوئے کہا کہ ملکی نظام سنبھالنے اور جمہوریت کے لیے ہم سب ملکر کھڑے ہوئے ہیں، بلوچستان عوامی پارٹی میاں صاحب کی حمایت کرتی ہے۔استحکام پاکستان پارٹی کے صدر علیم خان کا کہنا تھا کہ امید ہے آج کے بعد پاکستان کے حالات بہتری کی طرف جائیں گے، غریب کے حالات بہت خراب ہیں، مہنگائی بہت زیادہ ہے، ملک اور عوام کی خاطر فیصلے کریں گے۔میڈیا کی خبروں کے مطابق اس اجلاس کے فوری بعدمیاں محمد نوازشریف نے وزیراعظم کے عہدے کے لیے شہبازشریف کی نامزدگی کی توثیق کردی۔
وفاق میں حکومت سازی کے حوالے سے منظرنامہ تقریباً واضح ہو چکا ہے‘ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد ارکان کی تعداد92 ہے۔ اگر یہ آزاد ارکان نو منتخب قومی اسمبلی کے اجلاس تک متحد رہتے ہیں تو یہ ایوان میں سنگل لارجسٹ پارٹی بن جائے گی تاہم پی ٹی آئی تا حال آئینی اور قانونی پیچیدگیوں میں الجھی ہوئی ہے۔
اگلے روز بانی پی ٹی آئی نے دو ٹوک انداز میں کہہ دیا ہے کہ مسلم لیگ ن ، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان کے سوا باقی سب سے بات ہوسکتی ہے،اس کا مطلب یہی ہے کہ بانی پی ٹی آئی تاحال سخت گیر سیاسی پالیسی لے کر چلنا چاہتے ہیں‘ میڈیا میں یہ باتیں بھی سامنے آ رہی ہیں کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد ارکان جماعت اسلامی یا وحدت المسلمین پارٹی کا حصہ بن کر شہباز شریف کے مقابلے میں وزارت عظمیٰ کے لیے اپنا امید وار کھڑا کریں۔ایسا کرنے سے پی ٹی آئی اپنا وزیراعظم نہ بھی بنا سکے تو اپوزیشن لیڈر کا عہدہ ضرور حاصل کر سکتی ہے۔
بہرحال یہ تو آنے والے وقت کے فیصلے ہوں گے۔ فی الحال اتنا ہی کہا جا سکتا ہے جو میڈیا میں رپورٹ ہو رہا ہے۔بانی پی ٹی آئی نے جیل میں کسی بھی اعلی سرکاری عہدے دار سے ملاقات کی بھی تردید کی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ میں بنی گالہ شفٹ نہیں ہو رہا ہوں،جیل سماعت کے بعد میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی سیکریٹری اطلاعات رؤف حسن سے ملاقات ہوئی ہے اور میں نے انھیں تین جماعتوں کو چھوڑ کر سب کو اکٹھا کرنے کا کہا ہے،انھوں نے مزید کہا کہ انتخابات میں دھاندلی سے ملک میں عدم استحکام بڑھے گا، معیشت پر برا اثر پڑے گا۔
میں کہتا رہا کہ آزاد اور شفاف انتخابات واحد حل ہیں، دھاندلی کے خلاف آواز اٹھانے والی تمام جماعتوں کو اکٹھا کر رہے ہیں، وفاق اور صوبے میں حکومت بنانے سے متعلق ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ ہم سب سے پہلے انتخابی نتائج کو چیلنج کر رہے ہیں، ان نتائج کے خلاف سپریم کورٹ بھی جائیں گے، اب پتہ چل گیا کہ ہم آر اوز کے الیکشن کے خلاف کیوں تھے۔
وزیراعظم کے لیے ابھی کسی نام پر اتفاق نہیں ہوا اس پر غور کروں گا۔ ادھر تحریک انصاف کے سیکریٹری اطلاعات رؤف حسن نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ بانی پی ٹی آئی نے مجھے مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطہ کرنے کی ذمے داری سونپی ہے،چیئرمین ایم ڈبلیو ایم علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ کامیاب ارکان اسمبلی کی مجلس وحدت المسلمین میں شمولیت کے فیصلے پر انھیں خوش آمدید کہتے ہیں، خیبرپختونخوامیں حکومت سازی کے لیے پی ٹی آئی کی جماعت اسلامی میں شمولیت کے معاملے پر معاملات ابھی حل طلب ہیں۔
انتخابات 2024کے نتائج وفاق میں حکومت سازی کے حوالے سے مشکل ثابت ہوئے ہیں کیونکہ کوئی ایک جماعت بھی تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں رہی۔اس لیے یہ تو واضح ہو گیا ہے کہ وفاق میں مخلوط حکومت قائم ہو گی۔ مسلم لیگ ن کی اتحادی جماعتوں نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کے لیے نامزد کر دیا ہے ‘اب قومی اسمبلی کے اجلاس میں پتہ چل جائے گا کہ وزیراعظم کتنے مارجن سے جیتتا ہے۔
مسلم لیگ ن ‘پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم تینوں کی مشترکہ نشستوں کی تعداد کو دیکھیں تو اتحادی جماعتوں کا نامزد کردہ وزیراعظم با آسانی جیت جائے گا۔ بہرحال جب تک ایک جمہوری عمل آئین اور قانون کے تقاضوں کے مطابق پورا نہیں ہوتا‘ اس وقت تک کسی کے بارے میں حتمی رائے نہیں دی جا سکتی۔ بہر حال ایک بات طے ہے کہ پاکستان کو اس وقت ایک مضبوط وفاقی حکومت کی ضرورت ہے‘ صوبوں میں پارٹی پوزیشنز واضح ہیں اور یہاں بظاہر کوئی بحران نظر نہیں آتا‘ اس لیے اس وقت سب کی نظریں وفاق پر ہیں۔
پاکستان کی جمہوریت تمام تر مشکلات کے باوجود آگے بڑھ رہی ہیں‘ نومنتخب پارلیمنٹ اور وفاقی حکومت کے سامنے سب سے اہم چیلنج آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات کو بروقت طے کرنا ہے‘ پاکستان کی معاشی اور مالی حالت خاصی خراب ہے‘معاشی اور مالی مشکلات پر قابو پانے کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
امید یہی کی جا سکتی ہے کہ نو منتخب حکومت معیشت کے حوالے سے سیاسی مصلحتوں کا شکار نہیں ہو گی اور بروقت فیصلے کر کے معیشت کو بحران سے نکالے گی۔عالمی منظر نامے میں پاکستان کی پوزیشن خاصی بہتر ہے‘پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکل چکا ہے‘ عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ سابق اتحادی حکومت کی ڈیلنگ خاصی مثبت رہی ہے۔
اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اگر نو منتخب حکومت نے اپنی معاشی اور مالیاتی سمت درست رکھی تو پاکستان معاشی استحکام کی راہ پر گامزن ہو جائے گا‘ منتخب حکومت کے لیے پاکستان کے اندر متحرک منفی اور انتشار پسند قوتیںبھی متحرک ہو کر مشکلات پیدا کریں گی‘ مثال کے طور پر ڈالر کی قلت پیدا کرنا جس کا نتیجہ روپے کے عدم استحکام کی صورت میں نکلے گا‘ معاشی بحران گہرا ہو گا ‘ غربت اور بیروزگاری بڑھے گی۔
ایسی صورت حال میں شرپسند اور انتشار پسند قوتوں کے لیے عوام کے ذہنوں میں نفرت اور عناد کا بیج بونے کی راہ ہموار ہو جائے گی ‘ پاکستان کی نو منتخب حکومت اور ریاستی اداروں کو پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کو فول پروف بنانا ہو گا۔شمال مغربی سرحد غیر قانونی آمدورفت اور اسمگلنگ کے لیے خاصی ساز گار ہے۔
ماضی میں پاکستان سے بڑی تعداد میں ڈالر شمال مغربی سرحد کے پار گیا ہے‘ پاکستان کی گندم اور چینی بھی اسمگل ہو کر شمال مغربی سرحد کے پار گئی ہے‘ اس غیر قانونی تجارت اور اسمگلنگ کی وجہ سے پاکستان میں بلیک اکانومی کا حجم غیر معمولی طور پر بڑھا ہے‘ نئی منتخب حکومت کو اس غیر قانونی تجارت اور اسمگلنگ ختم کرنے کے لیے دلیرانہ فیصلے کرنے ہوں گے۔