عالمی بینک نے سرکاری ملکیتی اداروں (ایس او ایز) کی نجکاری پر پاکستان کے طریقہ کار پر تحفظات کا اظہار کیا، اور جوڈیشل ایکٹوزم، سیاسی صورتحال، کے الیکٹرک کی فروخت اور ’سرمایا پاکستان ماڈل‘ کے منفی اثرات پر روشنی ڈالی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مالیاتی ادارے نے حکومت کو خبردار کیا کہ حکومت سے حکومت کے معاہدوں کے تحت غیر ملکی سرمایہ کاروں کو قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور اس کے بجائے پارلیمنٹ کی خصوصی مشترکہ کمیٹی کی شفاف نگرانی کے تحت اسٹاک ایکسچینج کے ذریعے عوامی پیشکشوں اور اس کے بعد نجکاری کا مشورہ دیا۔
پبلک ایکسپنڈیچر ریویو 2023 میں بینک نے انٹر گورنمنٹل کمرشل ٹرانزیکشن ایکٹ 2022 کا حوالہ دیا، جو حکومت کو ریاستی ملکیتی اداروں کے حصص کی پیشکش غیر ملکی حکومتوں کو کرنے کی اجازت دیتا ہے، بینک نے خبردار کیا کہ ایسے اقدامات کے سبب قانونی چارہ جوئی ہوسکتی ہے، اور شفافیت پر سوالات اٹھ سکتے ہیں جبکہ نجکاری کا عمل مزید سست ہوسکتا ہے۔
بینک نے مشاہدہ کیا کہ پاکستان میں ریاستی ملکیتی اداروں کے منافع میں کمی ہوتی رہی اور تقریباً ایک دہائی سے یہ نقصان میں جارہے ہیں، چیزیں اس نہج پر پہنچ چکی ہیں کہ پاکستان کے وفاقی ریاستی کاروباری اداروں کے منافع جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہیں، جیسا کہ 2014 میں ان کے مجموعی منافع جی ڈی پی کے 0.8 فیصد تھے، جو 2020 میں جی ڈی پی کے تقریباً 0.4 فیصد نقصان میں تبدیل ہوگئے اور اس میں اضافہ جاری ہے، نتیجتاً یہ مالیاتی خسارے کا سب سے بڑا عنصر بن گیا ہے، اور نمایاں مالیاتی خطرہ ہے۔
عالمی بینک نے نجکاری کی ناکام کوششوں کے اہم عوامل کی نشاندہی معاشی اتار چڑھاؤ، جوڈیشل ایکٹوزم، قانونی چارہ جوئی، کمزور سیاسی عزم اور 2007 کے بعد کرپشن پرسپیشن انڈیکس میں اضافے کے طور پر کی۔
مزید بتایا کہ کچھ اہم سیاسی جماعتوں نے ریاستی کاروباری اداروں کی کارکردگی دیکھے بغیر نجکاری کی مخالفت کی، اور بے نظیر ایمپلائز اسٹاک آپشن اسکیم (بیسوس) کے ذریعے ملازمین کو 12 فیصد حصص کی پیشکش کرنے کو ترجیح دی، اور نجکاری کے حوالے سے عام تاثر انتہائی متنازع رہا، جس نے اشرافیہ کی گرفت کے نتیجے میں بے روزگاری اور سماجی بدامنی کی وجہ سے منفی جذبات کو جنم دیا۔