ایک نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ رات کو مسلسل پانچ گھنٹے نیند نہ لینے سے ڈپریشن کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
ماضی میں خراب نیند کو دماغی مرض کا ایک سائیڈ ایفیکٹ سمجھا جاتا رہا ہے لیکن نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ نیند اور دماغی بیماری کے درمیان تعلق زیادہ پیچیدہ ہے۔
برطانوی یونیورسٹی ’یو سی ایل‘ کے محققین کی جانب سے کی گئی اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جن لوگوں میں کم نیند کے حوالے سے زیادہ مضبوط جینیاتی رجحان ہوتا ہے، یعنی رات میں پانچ گھنٹے سے بھی کم نیند والے افراد میں چار سے 12 سالوں کے دوران ڈپریشن کی علامات جنم لینے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
لیکن اس کے برعکس جن لوگوں میں ڈپریشن کا زیادہ جینیاتی رجحان ہوتا ہے، ان میں کم نیند کا امکان زیادہ نہیں ہوتا تھا۔
ماہرین نے اس تحقیق میں یہ بھی پایا کہ یہ ربط ان لوگوں کے لیے مخصوص نہیں تھا، جو جینیاتی طور پر کم نیند کی طرف مائل تھے اور جو لوگ جینیاتی وابستگی کے بغیر باقاعدگی سے پانچ گھنٹے یا اس سے کم وقت کے لیے نیند لیتے ہیں، ان میں بھی ڈپریشن کا امکان زیادہ تھا۔
یو سی ایل انسٹی ٹیوٹ آف ایپیڈیمولوجی اینڈ ہیلتھ کیئر سے وابستہ اور اس تحقیق کی قیادت کرنے والی مصنفہ اوڈیسا ہیملٹن نے کہا: ’نیند کے دورانیے اور ڈپریشن کے درمیان تعلق انڈے یا مرغی (پہلے انڈا دنیا میں آیا یا مرغی) جیسے منظر نامے جیسا ہے، یعنی یہ اکثر ساتھ ہوتے ہیں لیکن جو پہلے آتا ہے (نیند یا ڈپریشن کا مسئلہ) وہ بڑی حد تک حل طلب رہتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’بیماری کے حوالے سے جینیاتی اثر پذیری کو دیکھتے ہوئے ہم نے طے کیا کہ اس سے پہلے کے نظریے کے برعکس ڈپریشن سے پہلے نیند میں خرابی کی علامات پیدا ہوتی ہیں۔‘
محققین نے انگلش لانگیٹوڈینل سٹڈی آف ایجنگ (ای ایل ایس اے) کی جانب سے تحقیق میں شامل کیے گئے 7,146 افراد کے جینیاتی اور صحت کے ڈیٹا کا استعمال کیا، جن کی اوسط عمر 65 تھی۔
جینیاتی اور صحت کے اعداد و شمار کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ کم نیند ڈپریشن کی علامات کے آغاز سے منسلک تھی، جیسے اداس یا تنہا محسوس کرنا۔
یو سی ایل انسٹی ٹیوٹ آف ایپیڈیمولوجی اینڈ ہیلتھ کیئر اور کنگز کالج لندن کے انسٹی ٹیوٹ آف سائیکاٹری، سائیکالوجی اینڈ نیورو سائنس سے وابستہ سینیئر مصنفہ ڈاکٹر اولیسیا اجنکینا نے کہا: ’ڈپریشن کے ساتھ ساتھ کم اور طویل نیند کے دورانیے صحت عامہ کے مسائل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، جو زیادہ تر وراثتی طور پر منتقل ہوتے ہیں۔‘
ان کے بقول: ’پولی جینک سکورز، کسی فرد کے مخصوص جینیاتی رجحان کے اشاریے، نیند کے دورانیے اور ڈپریشن کی علامات کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے شروع میں کلیدی سمجھے جاتے ہیں۔‘
ڈپریشن کی علامات اور نیند کے دورانیے کے درمیان غیر جینیاتی تعلق کو دیکھتے ہوئے محققین نے یہ بھی دریافت کیا کہ پانچ گھنٹے یا اس سے کم سونے والے افراد میں ڈپریشن کی علامات پیدا ہونے کا امکان ڈھائی گنا زیادہ ہوتا ہے جب کہ جن لوگوں میں ڈپریشن کی علامات موجود ہوتی ہیں، ان میں تین گنا کم نیند کے شکار ہونے کا امکان ہوتا ہے۔
سائنسی جریدے نیچر ٹرانسلیشنل سائیکٹری میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں طویل نیند اور ڈپریشن کی علامات پیدا ہونے کے درمیان تعلق کا بھی انکشاف ہوا ہے۔
نتائج کے مطابق جو لوگ نو گھنٹے سے زیادہ سوتے ہیں، ان میں ڈپریشن کی علامات ظاہر ہونے کا امکان اوسطاً سات گھنٹے سونے والوں کے مقابلے میں ڈیڑھ گنا زیادہ ہوتا ہے۔
تاہم ڈپریشن کی علامات چار سے 12 سال بعد زیادہ سونے سے منسلک نہیں تھیں جو جینیاتی نتائج سے مطابقت رکھتی ہے۔
یو سی ایل انسٹی ٹیوٹ آف ایپیڈیمولوجی اینڈ ہیلتھ کیئر میں بیہیویئر سائنس اینڈ ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کے سربراہ پروفیسر اینڈریو سٹیپٹو نے کہا: ’خراب نیند اور ڈپریشن عمر کے ساتھ بڑھتا ہے اور دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی آبادی کے رجحان کے ساتھ ڈپریشن اور نیند کی کمی کے تعلق کے طریقہ کار کو بہتر طریقے سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔‘
ان کے بقول: ’یہ مطالعہ جینیات، نیند اور ڈپریشن کی علامات کے انٹرسیکشن کے حوالے سے مستقبل کی تحقیقات کے لیے اہم بنیاد ہے۔‘
اس مطالعے میں شامل افراد نے ایک رات میں اوسطاً سات گھنٹے کی نیند لی۔
مطالعے کے دورانیے کے آغاز میں 10 فیصد سے زیادہ لوگ رات میں پانچ گھنٹے سے کم سوتے تھے اور یہ تعداد مطالعے کے اختتام پر 15 فیصد سے زیادہ ہو گئی۔
ڈپریشن کی علامات کی کلاس میں موجود افراد کے تناسب میں تقریباً تین فیصد پوائنٹس کا اضافہ ہوا، جو 8.75 فیصد سے 11.47 فیصد تک پہنچ گیا۔
مطالعے میں نیند اور ڈپریشن کی علامات کے اعداد و شمار کو دو سال کے وقفے سے دوبارہ کیے گئے ایلسا کے دو سرویز سے ملایا گیا کیونکہ نیند کے دورانیے اور ڈپریشن میں وقت کے ساتھ ساتھ اتار چڑھاؤ موجود ہوتا ہے۔
نیند کا دورانیہ اور ڈپریشن دونوں جزوی طور پر ایک نسل سے دوسری نسل کو وراثت میں منتقل ہوئے۔
ابتدائی مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ ڈپریشن تقریباً 35 فیصد موروثی مرض ہے اور یہ کہ جینیاتی فرق نیند کے دورانیے میں 40 فیصد تک تبدیلی کا سبب بنتا ہے۔