دنیا کا سب سے بڑا برفانی تودہ انٹار کٹیکا کے پانیوں سے باہر نکلنے والا ہے۔
اے 23 اے نامی یہ تودہ 1986 میں انٹار کٹیکا کی Filchner آئس شیلف سے الگ ہوا تھا مگر اس کے بعد 37 سال تک بحیرہ ودل میں پھنسا رہا۔
24 نومبر کو ایک رپورٹ میں اس کے آگے بڑھنے کے بارے میں بتایا گیا تھا۔
اب اس کی نئی سیٹلائیٹ تصاویر سے انکشاف ہوا ہے کہ کھربوں ٹن وزنی یہ برفانی تودہ تیزی سے جزیرہ نما انٹارکٹک کے شمالی حصے کی جانب بڑھ رہا ہے۔
تیز ہواؤں اور بحری کرنٹ کے باعث اس کی رفتار میں اضافہ ہوا ہے۔
یہ برفانی تودہ کراچی شہر سے بھی زیادہ ہے جو 1500 اسکوائر میل رقبے پر پھیلا ہوا ہے، جس کے مقابلے میں کراچی کا رقبہ 1360 اسکوائر میل ہے۔
برٹش انٹارکٹک سروے (بی اے ایس) کے مطابق اس بڑے برفانی تودے کو سفر کرتے دیکھنے کا موقع کبھی کبھار ہی ملتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ سائنسدان اس پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔
اس کے سفر کی رفتار بڑھنے کے بعد امکان ہے کہ یہ سدرن اوشین میں اس راستے پر آگے بڑھے گا جسے برفانی تودوں کا راستہ قرار دیا جاتا ہے۔
مگر ابھی یہ واضح نہیں کہ 3 دہائی سے زائد عرصے تک ایک جگہ پھنسے رہنے کے بعد یہ اچانک سفر کیسے کرنے لگا ہے۔
بی اے ایس کے ماہر اولیور مارش نے بتایا کہ ممکن ہے کہ وقت کے ساتھ برفانی تودہ کچھ پتلا ہوگیا ہے جس کے بعد سمندری کرنٹ نے اسے آگے کی جانب دھکیلا ہو۔
بی اے ایس کے ایک اور ماہر اینڈریو فلیمنگ نے چند روز پہلے بتایا تھا کہ یہ برفانی تودہ گزشتہ سال سے سست روی سے آگے بڑھ رہا تھا اور اب اس نے رفتار پکڑ لی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ‘میں نے اپنے چند ساتھیوں سے اس بارے میں بات کی کیونکہ مجھے لگتا تھا کہ شاید پانی کے درجہ حرارت میں تبدیلی آئی ہے جس نے برفانی تودے کو آگے بڑھنے پر مجبور کیا، مگر میرے ساتھیوں کا ماننا ہے کہ اس کے سفر کا وقت آگیا تھا’۔
اینڈریو فلیمنگ نے مزید بتایا کہ 2020 میں انہوں نے سب سے پہلے اس برفانی تودے میں حرکت کو دیکھا تھا۔
بی اے ایس کے مطابق اب یہ برفانی تودہ ساؤتھ جارجیا نامی جریزے کی جانب بڑھ رہا ہے۔
ایسا ممکن ہے کہ اے 23 اے ساؤتھ جارجیا میں جاکر پھنس جائے جس سے انٹار کٹیکا کی جنگلی حیات کو مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ہر سال لاکھوں پینگوئن اور دیگر جاندار اس جزیرے پر آتے ہیں مگر اس برفانی تودے سے وہاں تک رسائی منقطع ہو سکتی ہے۔
2020 میں ایک اور بڑے برفانی تودے اے 68 کے بارے میں بھی یہی خیال کیا جا رہا تھا کہ وہ ساؤتھ جارجیا سے ٹکرا نہ جائے، مگر وہ راستے میں ہی کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا، ایسا اے 23 اے کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔
مگر اولیور مارش کا کہنا تھا کہ اتنا بڑا برفانی تودہ طویل عرصے تک سدرن اوشین میں محفوظ رہ سکتا ہے اور شمال میں جنوبی افریقا کی جانب سفر کر سکتا ہے، جس سے وہاں جہاز رانی متاثر ہو سکتی ہے۔