سوئی ناردرن گیس پائپ لائن کمپنی لمیٹڈ( ایس این جی پی ایل) نے حکومتی ہدایات پر سردیوں کے دوران مہنگی ایل این جی کی لاگت سے پیدا ہونے والے بحران سے نمٹنے کیلیے لاگت گھریلوں صارفین پر ڈال دی ہے، تاہم، قانونی فریم ورک نہ ہونے کی وجہ سے قیمتوں کی وصولی نہیں کی جاسکی ہے۔
یاد رہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے دوران مہنگی ایل این جی کی لاگت کی گھریلوں صارفین سے وصولی کیلیے پارلیمنٹ سے گیس کا ویٹڈ ایوریج کاسٹ بل منظور کرایا گیا تھا، تاہم، اپوزیشن کے ہمراہ سندھ حکومت نے اس بل کو سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق نگران حکومت بھی سابقہ حکومتوں کی پیروی کرتے ہوئے مہنگی ایل این جی کا رخ گھریلوں صارفین کی طرف موڑنے کے طریقے پر گامزن ہے، جس سے رواں سیزن کے دوران تقریبا 70 ارب روپے کا بوجھ گھریلوں صارفین پر پڑے گا، تاہم اس اقدام کو قانونی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا، خاص طور پر سندھ حکومت کی جانب سے جو اپنے صارفین کو سستی گیس فراہم کرنا چاہتی ہے۔
نگران حکومت ویکوگ بل کو مرحلہ وار نافذ کرنا چاہتی ہے اور اس کا نفاذ صنعتوں سے شروع کرکے اسے گھریلوں صارفین تک توسیع دینے کی خواہاں ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ مقامی گیس کی کمی کی وجہ سے گیس سیکٹر خطرات کا شکار ہے، گزشتہ دہائی کے دوران گیس کی کوئی نمایاں دریافت نہ ہونے اور موجودہ ذخائر سے پیداوار میں سالانہ 9 فیصد کمی کی وجہ سے پاکستان ایل این جی کا امپورٹر بن گیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ویکوگ بل کے عدم عملدرآمد اور ایل این جی کی قیمتوں کی مکمل عدم وصولی کی وجہ سے ایس این جی پی ایل اور ایس ایس جی سی کی معاشی حالت تباہ ہوسکتی ہے، واضح رہے کہ گردشی قرضوں کے خاتمے کیلیے نگران حکومت نے حال ہی میں گیس کی قیمتوں میں 139 فیصد کا اضافہ کیا ہے۔
تاہم انرجی سیکٹر کا بلاسود گردشی قرضہ 4.5 ہزار ارب روپے ہے، جس میں سے گیس سیکٹر کا حصہ 2.1 ہزار ارب روپے ہے جبکہ پاور سیکٹر کا قرضہ 2.3 ہزار ارب روپے ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ ان اقدامات کے باجود گردشی قرضہ مسلسل بڑھ رہا ہے، اگر چہ ایل این جی کی لاگت 3600mmcfd ہے لیکن نگران حکومت یہ فرٹیلائزر سیکٹر کو 1239فی mmbtu کے ریٹ پر فراہم کر رہی ہے۔
تاہم سستی گیس کے حصول کے باوجود فرٹیلائزرز نے یوریا کی فی بوری کی قیمت 3 ہزار روپے سے بڑھا کر 5 ہزار روپے کردی ہے، اس کے علاوہ فرٹیلائزر سیکٹر گیس انفراسٹرکشر ڈیولپمنٹ سیس ( جی آئی ڈی سی) کی مد میں اربوں روپے صارفین سے وصول کرچکا ہے، لیکن یہ رقم ابھی تک قومی خزانے میں جمع نہیں کرائی گئی ہے۔