جب سے کالم میں کتابوں کا ہفتہ وار ذکر شروع کیا ہے، قارئین کی طرف سے مسلسل پذیرائی کی سند مل رہی ہے کتابیں پڑھنے والے کم ہوئے ہیں اور نہ کتابوں کی اشاعت میں کمی آئی ہے۔ حال ہی میں سنگ میل لاہور نے احمد فراز کی کلیات شائع کی ہے، جس کی قیمت 9ہزار روپے رکھی ہے۔ یہ غالباً پاکستانی تاریخ کی سب سے مہنگی کتاب ہے تاہم اسے خریدنے اور پڑھنے والوں کی بھی کمی نہیں کیونکہ مطالعہ کا شوق انسان کی سرشت میں شامل ہے اور اس میں کمی نہیں آ سکتی۔ آج کے کالم میں تین کتابوں کا ذکر مقصو دہے، ان میں دو شعری مجموعے اور ایک خاکوں کی کتاب ہے۔پہلی کتاب سینئر شاعر اور پاکستان میں جاپانی صنف ہائیکو کے بانی ڈاکٹر محمد امین کاشعری مجموعہ ”اقلیم قلم“ ہے۔ دوسرا شعری مجموعہ گورنمنٹ عبدالحق کالج جلال پور جٹاں کے پرنسپل اور شاعر و نقاد کلیم احسان بٹ کا”پس دیوار زنداں“ ہے جبکہ تیسری کتاب دلچسپ موضوع کی حامل اور ملتان کے بزرگ ماہر تعلیم اور دانشور پروفیسر اعجاز رسول چشتی کے خاکوں پر مشتمل ”غیر مستند ہے میرا فرمایا ہوا“ ہے۔ یہ تینوں کتابیں جامع مقالات کی متقاضی ہیں تاہم کالم میں ان کا ذکر اختصار سے کرنا مجبوری ہے۔
ملتان میں مقیم فلسفے کے سینئر ترین استاد، نقاد، ہائیکونگار اور شاعر ڈاکٹر محمد امین ادبی حلقوں میں اپنی خاص پہچان رکھتے ہیں۔ انہیں جاپانی ضعف پاکستان میں متعارف کرانے پر جاپان حکومت کی طرف سے اعزاز بھی مل چکا ہے۔ ڈاکٹر محمد امین کی ادب و فلسفے پر متعدد کتابیں شائع ہو چکی ہیں ان کی یہ نئی کتاب غزلوں، نظموں، حمد و نعت اور ہائیکو پر مشتمل ہے اس کا دیپاچہ ممتاز نقاد و محقق ڈاکٹر سعادت سعید نے لکھا ہے۔ ڈاکٹر محمد امین کتاب کے آغاز میں لکھتے ہیں ”مجھے شاعری کا شوق تو بچپن ہی سے ہے اب تک شاعری کے تیرہ مجموعے شائع ہو چکے ہیں ہر مجموعے کی اشاعت کے بعد مجھے تشنگی کا احساس ہوا۔ مجھے یہ محسوس ہوا کچھ کہنے سے رہ گیا ہے۔ اب یہ چودھواں مجموعہ ہے جو آپ کے سامنے ہے۔ اس مجموعے میں ان موضوعات کو منتخب کیا ہے جو ہمارے اردگرد پھیلے ہوئے ہیں“۔ ڈاکر سعادت سعید نے اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا ہے ”ڈاکٹر محمد امین نے اپنے عہد کے بعض اسرار بھرے سلسلوں، نادیدہ، پاتالوں اور رنگ برنگے خانوں سے گزرنے کا کام خوش اسلوبی سے کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں یہ تو ہونا ہی تھا کہ ان پر زندگی، انسان اور ماحول سے جڑے معاملات کی تمام جہتیں، الجھنیں اور صورتیں واضح ہو گئیں“۔ اقلیم قلم کے موضوعات بہت متنوع ہیں۔ خاص طور پر نظموں میں انہوں نے عصر حاضر کی خوب ترجمانی کی ہے۔ غزلوں کا حصہ اگرچہ زیادہ ضخیم نہیں، تاہم ڈاکٹر محمد امین کی غزل کا جو مخصوص لب و لہجہ ہے، اس میں نظر آتا ہے، ”خواب نامہ“ کے عنوان سے شاعر نے رومی اور سلطان باہو سمیت تاریخ کی ایسی شخصیات سے ملاقات کا تخیلاتی احوال پیش کیا ہے، جنہوں نے انسانی تہذیب و تمدن پر گہرے اثرات ثبت کئے۔ ڈاکٹر محمد امین کا یہ شعری مجموعہ بھی ان کے پہلے شائع ہونے والے مجموعوں کی طرح انفرادیت کا حامل ہے۔
کلیم احسان بٹ کا نام ادب و شعر کی دنیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ان کا تعلق گجرات سے ہے تاہم وہ ایک عرصہ راولپنڈی میں مقیم رہے۔ ان کے چار شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں جبکہ نثر کی متعدد کتابوں کے بھی وہ مصنف ہیں ”پس دیوار زنداں“ ان کا ایک مشہور شعری مجموعہ ہے۔ ان کا شعری میدان نظم و غزل دونوں پر مشتمل ہے تاہم غزل میں ان کی توانا آواز قاری کو اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہےّ معروف شاعر و نقاد طاہر حنفی لکھتے ہیں ”کلیم کی شاعری لمحہء موجود کا وہ عکس ہے جس سے نہ چاہتے ہوئے بھی زمانہ صرف نظر نہیں کر سکتا کیونکہ دلگداز حقیقت کی نفی اپنی ہی حقیقت کی نفی ہے جس کو شاید کلیم اور ان کے ہم عصر پس پشت ڈالنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ کلیم کی شاعرانہ ذات کے کئی پرتو ہیں، کہیں وہ ایک معصوم بچے کی صورت زندگی کی کلکاریوں سے کھیل رہا ہوتا ہے تو کہیں اس کی ذات تصورات سے شبیہ تراش رہی ہوتی ہے“۔ کلیم احسان بٹ نے اپنی شاعری کے کئی روزن بنائے ہیں تاہم ہر روزن معاشرے کی حقیقتوں اور جذبہ واحساس کی طرف کھلتا ہے۔ غزل کے روائتی موضوعات سے ہٹ کر انہوں نے اسے ایک ایسا آئینہ بنا دیا ہے جس میں لمحہء موجود کی سچائیاں نظر آتی ہیں ان کا ایک خاص لب و لہجہ ہے جس کی وجہ سے ان کی شاعری انفرادی رنگ اختیار کر جاتی ہے۔ سلاستِ بیان اور لطافت و چاشنی ان کی غزل کو دوآتشہ کر دیتی ہے۔ چھوٹی بحر کی غزلوں میں انہوں نے نغمگی و معانی کے جس امتزاج کو سمویا ہے وہ انہی کا خاصا نظر آتا ہے:
شہر سے شہر دربدر ہجرت
روز کہتا ہے مجھ سے کرہجرت
جانے یہ خواب کیا دکھائے گا
میں نے دیکھی ہے رات بھر ہجرت
”پسِ دیوار زنداں“ اردو کے شعری ورثے میں ایک خوبصورت اضافہ ہے۔
آج کی تیسری کتاب پروفیسر اعجاز رسول چشتی کے لکھے گئے خاکوں پر مبنی ”غیر مستند ہے میرا فرمایا ہوا“ ہے۔ پروفیسر اعجاز رسول چشتی بنیادی طو رپر بیالوجی کے کہنہ مشق استاد ہیں تاہم وہ ایک مجلسی شخصیت کے مالک ہیں اور ان کا حلقہء احباب بہت وسیع ہے۔ انہوں نے ملتان کی بہت بڑی اور نمایاں شخصیات کے ساتھ وقت گزارا ہے۔ وہ گاہے بہ گاہے اخبارات میں ان شخصیات کے خاکے لکھتے تھے جس پر میں نے ان کی توجہ اس طرف دلائی کہ وہ باقاعدگی سے خاکے لکھیں اور انہیں کتابی صورت میں شائع کرائیں تاکہ ان شخصیات کی تاریخ مرتب ہو سکے جس پر وہ دوستوں کے بصد اصرار کے بعد رضا مند ہوئے اور یہ کتاب منظر عام پر آئی۔اس کتاب میں شامل خاکے جہاں ممدوح شخصیات کی زندگی کے دلچسپ پہلو سامنے لاتے ہیں وہیں پروفیسر اعجاز رسول چشتی کی شگفتگی اور بزلہ سنجی نثر کو دوآتشہ کر دیتی ہے۔ پروفیسر اعجاز رسول چشتی جس محفل میں ہوں اسے زعفران زار بنا دیتے ہیں۔ان کے خاکوں میں جن شخصیات کا ذکر کیا گیا ہے وہ سب ان کے حلقہء احباب میں شامل ہیں۔ وہ ان کی خلوتوں اور جلوتوں کے ساتھی رہے ہیں، یوں ایک طرح وہ گھر کے بھیدی ہیں مگر اس کے باوجود وہ اپنے خاکوں میں ان شخصیات کا ایک ایسا مثبت تاثر ابھارتے ہیں کہ پڑھنے والا اس کے سحر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ جابر علی سید، پروفیسر موسیٰ رضا، ڈاکٹر اے بی اشرف، پروفیسر مبارک مجوکہ، عبدالعزیز بلوچ، ارشد ملتانی، پروفیسر محمد اقبال ملک اور دیگر شخصیات پر ان کے خاکے یادوں کا ایک دبستان کھول دیتے ہیں۔خاکوں کے علاوہ اس کتاب میں ان کے دلچسپ مضامین بھی شامل ہیں۔ اس کتاب کی سب سے خوبصوت خاصیت اس کی شگفتہ اور سادہ و بے تکلف نثر ہے جسے پڑھتے ہوئے قاری کو ایک خاص قسم کے ترضع کا احساس ہوتا ہے۔ یہ کتاب ملتان کی خاکہ نگاری میں یقیناً ایک اضافے کا باعث ہے۔