مزدوروں، کسانوں اور معاشرے کے پسماندہ طبقوں کا خیر خواہ اورسیاسی وسماجی رہنما سید محمد قسورگردیزی 11 ستمبر1993کو جہان فانی سے ہمیشہ کیلئے کوچ کرکے اپنے خالق حقیقی کے پاس پہنچ گئے۔ ملتان کے ممتاز سیاسی رہنما روزنامہ پاکستان ٹائمز اور روزنامہ امروز شائع کرنے والے ادارے پروگریسو پیپرز لمیٹڈکے ڈائریکٹر بھی رہے۔ قسور گردیزی پروگریسو پیپرز کے بانی میاں افتخار الدین مرحوم کے گہرے دوست تھے۔
قسور گردیزی صاحب کے صاحب زادے زاہد حسین گردیزی کہتے ہیں 6 ستمبر 1965 کو سورج طلوع ہونے سے پہلے میں اپنے والد سید محمد قسور گردیزی اور والدہ کے ہمراہ لاہور جی او آر GOR میں واقع 21- ایکمن روڈ، پر میاں افتخارالدین کی کوٹھی میں خواب خرگوش میں تھا کہ اچانک پلنگ پر لیٹے ہوئے زلزلے کے سے جھٹکے محسوس ہوئے اور پھر وقفہ وقفہ سے کہیں بہت دور سے دھماکوں کی آوازیں آنے لگیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے گھر کے سب مکین بیدار ہوگئے ہر فرد سمجھنے کی کوشش میں تھا کہ کیا ماجرا ہے۔ آوازیں گاہے گاہے ہلکی ھلکی دھمک کے ساتھ آتی رہیں اور پو پھوٹنے پر جب شہر لاہور کے مکینوں کے جاگنے کا وقت ہوا تو وہ آوازیں جو رات کی تاریکی میں قدرے نمایاں تھیں شہر کی چہل پہل میں دب گئیں۔
جناب زاہد گردیزی کہتے ہیں کہ مجھ سمیت باقی لوگ بھی بے خوف ہو کر دوبارہ غنودگی میں چلے گئے۔ صبح ساڑھے سات بجے جب میاں صاحب کا ملازم کمرے میں ناشتہ دینے آیا تو والدصاحب کو سلام کے بعد بغیر پوچھے بتانے لگا کہ شاہ صاحب، ابھی باغبان پورہ سے، (جہاں میاں افتخارالدین کا زرعی رقبہ تھا اور آم کے باغات بھی) میاں صاحب کا گوالہ گھر دودھ دینے آیا تو ملازموں کو بتا کر گیا ہے کہ بھارت نے پاکستان کی سرحد پر واہگہ بارڈر سے حملہ کردیا ہے اور بھارتی ٹینک باٹا پور تک پہنچنے والے ہیں۔ اتنے میں ریڈیو پاکستان سے ایوب خان کی گرج دار تقریر ”میرے عزیز ہم وطنو’دشمن نے آج صبح پاکستانی قوم کو للکارا ھے۔۔۔۔۔۔۔”نشر ہو گئی۔
جلد ہی ایکمن روڈ کے حالات معمول پر آگئے اور ہمیں اس پر سکون گھر میں محسوس نہیں ہورہا تھا کہ پاکستان کی سرحد پر کچھ انہونی ہو رہی ہوگی۔ البتہ ریڈیو پر ملی نغموں کا آغاز ہوگیا اور خصوصی نیوز بلیٹن میں صورت حال اور ایوب خان کی تقریر کے حصے نشر ہوتے رہے۔ بارڈر پاکستان پر پاک فوج کی شہادتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
ستمبرکو گھر والے عموماً والد صاحب کی سالگرہ غیر رسمی طور پر مناتے تھے اور ان کو مبارک باد دیتے تھے۔ یہ سلسلہ ہمارے بچپن سے جاری تھا۔ حسب معمول ناشتے کے بعد ہم تمام بچوں کی میاں صاحب کی بارہ کنال کی کوٹھی کے لانوں میں جھولوں پر کھیل کود شروع ہوئی تو اچانک دوپہر کے قریب لاہور کے آسمان پر جنگی جہازوں کی گڑگراہٹ نے چونکادیااور ہم خوف زدہ ہو گئے۔
زاہد گردیزی کہتے ہیں کہ 6 ستمبر1965 کا یہ تھوڑا سا منظر ان کے ذہن میں اب بھی نقش ہے جس میں اس دن کی مناسبت سے ہم قسور گردیزی کی سالگرہ مناتے تھے اور جب وہ اس روز بچوں اور گھروالوں کے درمیان ہوتے تھے تو وہ بھی اس گھریلو تقریب میں شامل ہوتے اور مسکراتے تھے۔ ان کی اکثر سالگرہ ہم ان کی غیر موجودگی میں مناتے کبھی ان کی سیاسی مصروفیات کی وجہ سے اور کبھی ان کی جیل یاترا کے سبب۔
زاہد گردیزی کہتے ہیں کہ بالآخر 11 ستمبر 1993 کو قسور گردیزی صاحب اس جہان فانی سے ہمیشہ کیلئے کوچ کر گئے اور انسانی اذیتوں، جیلوں، منافقتوں کی دنیا سے آزاد ہو کر خالق حقیقی کی پناہ میں چلے گئے۔
قسور گردیزی اپنی زندگی میں پاکستان کی شاہراہوں، عمارتوں، ترقیاتی منصوبوں پر اپنے نام کی تختیاں تو نہ لگوا سکے لیکن غریب اور پسماندہ عوام، فیکٹریوں اور کھیت مزدوروں اور محنت کشوں کے دلوں پر محبت کی مہر ثبت کر گئے جن کی بھلائی کیلئے انہوں نے اپنی زندگی میں جدوجہد کی اور مصائب برداشت کیے۔