آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے گزشتہ دنوں کراچی میں تاجروں سے جو میٹنگ کی،میرے خیال میں یہ بہت اچھا فیصلہ تھا جو بڑے رائٹ ٹائم پہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے معاملات اور حالات میں خرابی کی بالکل ٹھیک نبض پکڑی ہے،بالکل ٹھیک چیز کی نشان دہی کی ہے،جس کی وجہ سے ملک کی پوری کی پوری معیشت تباہ ہو رہی ہے۔ یہ مسئلہ ہے: سمگلنگ۔ انہوں نے جس چیز کو ڈسکس کیا ہے اللہ کرے یہ صرف ڈسکشن تک محدود نہ رہے بلکہ جو فیصلے ہوئے ہیں ان کو عملی جامہ بھی پہنایا جا سکے۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ دوسرے عوامل کے ساتھ ساتھ سمگلنگ بھی قومی معیشت کو شدید نقصان پہنچانے کا باعث بن رہی ہے اور ایک عرصے سے بن رہی ہے۔ بہت سی اجناس جیسے سبزیاں،آٹا،دالیں ایران، بھارت اور افغانسان سمگل ہو رہی ہیں۔ آج کل ہمارا ملک چینی کے بحران کا شکار ہے جس کی قیمتیں یہاں بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔ خاصی بڑی مقدار میں تو چینی برآمد کی گئی لیکن اس جنس کی افغانستان سمگلنگ بھی ہو رہی ہے۔ اس سملنگ کو روکنے کے لئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ افغانستان اور دوسرے ہمسایہ ممالک سے بات کی جانی چاہئے کہ اگر ان چیزوں کی آپ کو ضرورت ہے تو جائز طریقے سے ہم سے خریدیں،جیسے دوسری اشیا درآمد کر رہے ہیں،یہ بھی کر لیں۔ اس سے ان کو فائدہ ہو گا اور ہمیں بھی۔ اسی طرح ڈالر بھی آپ کا بہت زیادہ اِدھر سے اُدھر،اُدھر سے اِدھر ہو رہا ہے کیونکہ پاکستان اور افغانستان کا بارڈر ایریا بہت بڑا ہے۔ اس بارڈر ایریا کو حفاظتی نقطہ نظر سے فوج ہی کنٹرول کرتی ہے۔ اللہ کرے کہ ہمارے آرمی چیف کا یہ خواب پورا ہو جائے۔ اس سے معیشت کو استحکام ملے گا اور ہمارے لئے اقتصادی لحاظ سے کچھ فیصلے کرنا آسان ہو جائے گا۔ زرعی اجناس کی سمگلنگ روکی جائے گی تو ہی مارکیٹوں میں ان کی مقدار بڑھائی جا سکے گی اور اکنامکس کا ’ڈیمانڈ اینڈ سپلائی،رُول یہ کہتا ہے کہ جب مارکیٹ میں زیادہ مقدار میں اجناس موجود ہوں گی تو ان کی قیمتوں کا گراف خود بخود نیچے آ جائے گا۔ اس طرح سمگلنگ روکنا مہنگائی پر قابو پانے کے سلسلے میں بھی ممد ثابت ہو گا۔ یہاں پاکستان میں تو سب جانتے ہیں کہ انوکھا نظام چل رہا ہے کہ پیچھے سے قیمت میں ایک روپیہ اضافہ ہو تو عام مارکیٹ میں اس جنس کی قیمت میں دس روپے اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ یہاں کسی کو معاف کرنے کا تو چلن ہے ہی نہیں۔ جو جس کے آگے مجبور ہوا،اس نے اس کا استحصال شروع کر دیا۔ یہی کچھ ہو رہا ہے ہمارے ملک میں۔ نہ گورنمنٹ عوام کو معاف کر رہی ہے اور نہ ہی عوام آگے کسی کو معاف کر رہے ہیں۔ بس سب ایک دوسرے کو رگڑے پہ رگڑا دیئے جا رہے ہیں۔ یہ سلسلہ بند ہونا چاہئے۔
دوسرا یہ کہنا تھا کہ حج بہت زیادہ مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔ اس دفعہ بھی بارہ تیرہ لاکھ روپے میں گورنمنٹ نے حج کروایا تھا اور کئی لوگ بے چارے جو اپنے طور پر حج کر رہے تھے،انہیں اس خطرے کے تحت خاصے زیادہ پیسے خرچ کرنا پڑے تھے کہ کوٹے ختم نہ ہو جائیں۔ حج کے ریٹ بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں اور مستقبل میں مزید بڑھنے کا اندیشہ ہے کیونکہ ڈالر کا اور ریال کا روپے میں ایکسچینج ریٹ بڑھ رہا ہے۔ اس حوالے سے میری تجویز یہ ہے کہ بحری جہازوں کے ذریعے حج کرانے کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا جائے۔ کسی زمانے میں یہاں سے بحری جہاز چلتے تھے اور ان پر باقی سارا سال تو عام شہری سفر کرتے لیکن حج سے دو تین ماہ پہلے سے حجاج کرام بھی بحری جہازوں پر سوار ہو کر ارضِ مقدس جاتے تھے۔ پھر پتہ نہیں کیوں یہ سلسلہ موقوف یا محدود کر دیا گیا۔ بنگلہ دیش میں اور بھارت سے تو ابھی تک مسافر بحری جہاز چلتے ہیں اور ان پر حج سے پہلے حجاج کرام بھی سعودی عرب جاتے ہیں۔ ہوائی جہاز میں تو دو تین گھنٹے میں مسافر پاکستان سے سعودی عرب پہنچ جاتے ہیں جبکہ بحری جہاز میں کئی دن کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح یہ روحانی کے ساتھ ساتھ ایک تفریحی ٹور بھی بن جاتا ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ بحری جہاز سے حجاج کرام کا سفر سستا پڑے گا اور کم اخراجات آئیں گے۔ یوں وہ لوگ بھی اس متبرک اسلامی فریضے کو ادا کر سکیں گے جن کی آمدنیاں محدود ہیں اور وہ حج کا شوق رکھتے ہیں۔ ٹھیک ہے حج یا عمرہ کی غرض سے مختصر مدت کے لئے سعودی عرب جانے والوں کا تو وقت کا مسئلہ ہے لیکن جن کا چالیس چالیس دن کا پیکیج ہوتا ہے ان کے لئے بحری جہاز سے جانا ہی ایک بہتر آپشن ہو سکتا ہے۔ وہ وقت اور تھا جب بحری جہاز سے سعودی عرب کا سفر دو تین ہفتوں کا ہوتا تھا،اب تو جدید ٹیکنالوجیز نے بحری سفر کو بھی تیز رفتار،آسان اور آرام دہ بنا دیا ہے۔ ہوائی جہاز کے برعکس بحری جہاز میں ایک وقت میں ہزاروں افراد سفر کرتے ہیں جس سے فی کس کرایہ یا اخراجات کم ہو جاتے ہیں،اس لئے میرے خیال میں حج کو آسان،آرام دہ بنانے اور حج کے اخراجات کو کم کرنے کا بہترین طریقہ بحری جہازوں کا استعمال ہی ہو سکتا ہے۔ پھر کسی زمانے میں بسوں کے ذریعے بھی ایسا سفر ارینج کیا جاتا تھا بلکہ میں نے تو سنا ہے کہ کسی زمانے میں لندن سے کلکتہ تک بس سروس فراہم کی جاتی تھی۔ سعودی عرب تو لندن کی نسبت بہت قریب پڑتا ہے۔ حکومت اگر ایسا کوئی اقدام نہیں کر سکتی تو پاکستان تا سعودی عرب پرائیویٹ بس سروس کا اہتمام بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے اقدامات مجموعی طور پر زیادہ مالی فائدوں کا سبب بن سکتے ہیں،اس لئے ان کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی اشد ضرورت ہے۔
علاوہ ازیں یہ جو ہمارا سیاسی ماحول بنتا جا رہا ہے کہ جلا دو،گرا دو،اس کو ابھی سے روکا جانا چاہئے۔ سیاسی رہنماؤں کو اپنی زبان پر بہت کنٹرول ہونا چاہئے۔ ہر بات نپی تُلی کی جانی چاہئے تاکہ سیاسی درجہ حرارت کچھ کم ہو۔ سیاسی درجہ حرارت کچھ کم ہو گا تو ہی ہم سوچ سکیں گے کہ دوسرے معاملات کو کیسے چلانا ہے۔ یہ تشدد آمیز بات چیت اور بیانات ٹھیک نہیں ہیں۔ سب کو سوچنا سمجھنا چاہیے کہ عوام تو ایک دوسرے کے بہن بھائی ہیں،تو یہ جلاؤ گھیراؤ کس کے بارے میں کہہ رہے ہیں؟ کیا گریبان باہر والوں کا پکڑنا ہے؟ موجودہ صورت حال میں بھائی چارے کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ اتنی جتنی شاید پہلے کبھی نہ تھی۔