اسلام آباد: پاکستان میں بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ ماہ ستمبر کے اختتام تک بڑھتے ہوئے 2540 ارب روپے (یعنی 2 کھرب 54 ارب روپے) سے تجاوز کرگیا ہے باوجود اس کے کہ عالمی مالیاتی فنڈ سے معاہدے کے بعد حکومت کی جانب سے بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کیا گیا۔
جمعرات کے روز وزارت مالیات کی جانب سے آئی ایم ایف سے لیے گئے 3 ارب ڈالر معاہدے کے حوالے سے پیش رفت اور کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے صورت حال کو تسلی بخش قرار دیا گیا۔
پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف کو یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی تھی کہ اکتوبر کے اختتام تک تمام حکومتی کھاتوں کو ایک واحد اکاؤنٹ کے تحت کردیا جائے گا جس کا نگراں مرکزی بینک ہوگا تاہم اس حوالے سے ابھی معاملات تاخیر کا شکار نظر آتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ توانائی کے شعبے کے گردشی قرضوں میں گزشتہ تین ماہ کے دوران 227 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔
وزارت توانائی کے ایک سینئر اہلکار نے ایکسپریس کو بتایا کہ گردشی قرضوں کے حوالے سے طے کی گئی حد کو ابتدائی تین ماہ کے لیے 292 ارب روپے کی سطح تک بڑھایا گیا تھا اور اس حوالے سے وزارت کی کارکردگی توقع سے بڑھ کر بہتر رہی اور آنے والے مہینوں میں گردشی قرضوں میں بتدریج کمی نظر آئے گی۔
وزارت مالیات کی جانب سے گردشی قرضوں کی ادائیگی میں مدد دینے کے لیے اکتوبر کے پہلے ہفتے کے دوران 70 ارب روپے جاری کیے گئے ہیں کیونکہ وزارت کی جانب سے پہلے سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) کے دوران اس مد میں صرف ڈھائی ارب روپے جاری کیے تھے تھے کیونکہ وزارت مالیات نہیں چاہتی تھی کہ زراعانت کی مد میں جاری کی گئی رقم کو پہلی سہ ماہی میں شمار نہ کیا جائے۔
اس کے علاوہ حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط میں کچھ پر عمل کرتے ہوئے بجلی کی قیمتوں میں آٹھ روپے فی یونٹ اضافہ جولائی سے کردیا تھا اور اس سے قبل حکومت جولائی کے لیے فیول ایڈجسٹمنٹ میں اضافے کا اعلامیہ پہلے جاری کرچکی ہے اور اگست کے لیے قیمتوں میں اضافے پر عملدرآمد اس ماہ سے ہوگا۔ اسی طرح سہ ماہی کی بنیاد پر قیموں میں 3 روپے 3 پیسے فی یونٹ ایڈجسٹمنٹ بھی اسی ماہ سے ہوگا جس کی وجہ سے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا حالانکہ سردیوں کی آمد ہے اور بجلی کی کھپت میں کمی ہوتی ہے۔
ادھر عالمی مالیاتی فنڈ آئندہ ماہ یعنی 2 نومبر سے جولائی تا ستمبر کی سہ ماہی کے دوران حکومت پاکستان کی کارکردگی کا جائزہ لینا شروع کرے گا اور ادارے کے اطمینان کی صورت میں دسمبر میں ہونے والے بورڈ کے اجلاس میں قرض کی اگلی قسط 71 کروڑ ڈالر ملنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
علاوہ ازیں حکومت زرعی شعبے سے وابستہ ٹیوب ویلوں کو دی جانے والی زر اعانت (سبسڈی) ختم کرنے پر کام کررہی ہے اور اس وقت اس حوالے سے سروے کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے یہ معاملات تاخیر کا شکار ہے اور ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ سبسڈی ختم کرنے کی تجاویز حکومت کو اس سال کے اختتام تک مل جائیں گی اور رواں مالی سال کے اختتام تک یعنی جون تک اس پر عملدرآمد کردیا جائے گا۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ حکومت چینی بجلی کے کارخانوں سے کیے گئے بجلی خریدنے کے معاہدوں پر دوبارہ مذاکرات کرنا چاہتی ہے تاہم چین نے دوبارہ مذاکرات سے انکار کردیا ہے اور اب حکومت اس حوالے سے نئی تجاویز مرتب کررہی ہے تاکہ اس معاملے کو حل کیا جاسکے، اور ہوسکتا ہے کہ اس حوالے سے ایک نئی کمیٹی قائم کردی جائے۔
مزید یہ کہ حکومت نے ٹریڑری بلز جاری کیے گئے بغیر تجارتی بینکوں سے براہ راست قرض لینے کی سہولت ختم کردی ہے، سب سے پہلے ایکسپریس ٹریبیون نے اس معاملے کو اٹھایا تھا۔ ایف بی آر کی کارکردگی جا جائزہ لیں تو نظر آتا ہے کہ ادارے نے مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے لیے اپنے ہدف کو حاصل کرلیا ہے۔
ادارے کے مطابق جولائی تا ستمبر کے دوران ایک کھرب 98 ارب روپے محصولات جمع کیے گئے، اس کے علاوہ پہلی سہ ماہی کے دوران نہ کسی قسم کی کوئی رعایتی اسکیم دی گئی اور نہ ہی کسی کو ٹیکسوں میں چھوٹ دی گئی۔
پاکستان نے آئی ایم ایف کی ایک اور شرط پر عمل کرتے ہوئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے پہلی سہ ماہی کے لیے 87 ارب 50 کروڑ روپے جاری کیے اور اس اسکیم سے مستفید ہونے والوں کے لیے رقم میں اضافے کی جو دوسری شرط تھی اس حوالے سے فیصلہ آئندہ ماہ متوقع ہے۔