برطانوی حکومت رواں ہفتے غیر ملکی سیاسی رہنماؤں، ٹیکنالوجی صعنت کی شخصیات، ماہرین اور دیگر افراد کو مصنوعی ذہانت (اے آئی) پر اپنی نوعیت کے پہلے سربراہی اجلاس میں خوش آمدید کہے گی۔
مصنوعی ذہانت کے جدید ترین ماڈلز نے ملازمتوں اور سائبر حملوں سے لے کر اپنے ہی ڈیزائن کردہ نظاموں پر انسانوں کے کنٹرول کھونے تک ہر چیز کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے۔
رشی سونک اور دیگر رہنماؤں کی دلیل دی ہے کہ فرنٹیئر اے آئی کا موجودہ علم اور ریگولیشن ممکنہ طور پر ان مسائل کے لیے ناکافی ہے جو اس سے پیدا ہوں گے۔
اس ہفتے کے شروع میں ایک تقریر میں اس برطانوی رہنما نے کہا ’میرا وژن، اور ہمارا حتمی مقصد، حفاظت کی خاطر زیادہ بین الاقوامی نقطہ نظر کے لیے کام کرنا ہونا چاہیے جہاں ہم شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس بات کو یقینی بنائیں کہ مصنوعی ذہانت کے نظام استعمال سے پہلے محفوظ ہوں۔‘
انہوں نے ماحولیاتی تبدیلی کے لیے تشکیل کردہ ایک بین الاقوامی پینل کی طرز پر ماہرین کے پینل کی تشکیل کی تجویز دیتے ہوئے مزید کہا ’ہم ان خطرات کی نوعیت کے بارے میں پہلے بین الاقوامی بیان پر اتفاق کرنے کے لیے سخت کوشش کریں گے۔‘
لندن کا اصرار ہے کہ وہ امریکی صدر جو بائیڈن کے کہنے پر اے آئی کے معاملے میں سربراہی کر رہا ہے کیونکہ دونوں ممالک کی کچھ معروف کمپنیاں اس شعبے میں ہیں۔
لیکن مبینہ طور پر اسے کچھ آئیڈیاز پر اپنے عزائم کم کرنے پر مجبور کیا گیا ہے جیسا کہ ایک نئی ریگولیٹری باڈی لانچ کرنا۔
بلیچلے پارک
اطالوی وزیراعظم جارجیا میلونی ان واحد عالمی رہنماؤں میں سے ایک ہیں جو بدھ سے شروع ہونے والی کانفرنس میں شرکت کریں گے۔
رشی سونک کے ترجمان نے رواں ہفتے نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ ’اس اہم مسئلے پر بات چیت کے لیے تمام صحیح لوگوں کا جمع ہونا بھی ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔‘
یہ سربراہی اجلاس علامتی مقام بلیچلے پارک میں منعقد کیا جائے گا، جہاں برطانیہ کے سرکردہ کوڈ بریکرز نے نازی جرمنی کا ’اینگما‘ کوڈ بریک کیا تھا، جس سے دوسری بڑی عالم جنگ کے خاتمے میں مدد ملی تھی۔
یہ نیشنل میوزیم آف کمپیوٹنگ کا گھر بھی ہے، جو کام کرنے والے تاریخی کمپیوٹروں کا دنیا کا سب سے بڑا مجموعہ ہے۔
مصنوعی ذہانت اور نیورو سائنس کے پروفیسر الڈو فیصل نے رواں ماہ ایک بریفنگ میں کہا تھا ’میرے لیے یہ واضح ہے کہ اس سال، اگلے دو، تین سال اور 200 سالوں میں کیا ہوگا۔‘
اگرچہ مصنوعی ذہانت کی صلاحیت سے امیدیں پیدا ہوئی ہیں، خاص طور پر ادویات میں لیکن اس کی ترقی کو بڑی حد تک غیر کنٹرول شدہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
اپنی تقریر میں رشی سونک نے متنبہ کیا کہ مصنوعی ذہانت میں سائبر، غلط معلومات اور دھوکہ دہی کے خطرات سمیت آرٹس اور میڈیا سمیت مختلف شعبوں میں ہزاروں ملازمتیں ختم کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
انہوں نے اس بات کی ضرورت پر زور دیا کہ ممالک ’ان خطرات کے بارے میں مشترکہ سوچ رکھیں جن کا ہمیں سامنا ہے،‘ جو کہ فی الحال نہیں ہے۔
مکالمہ
ہیرس، وان ڈیر لیئن، گوتریش اور میلونی نے اپنی شرکت کی تصدیق کی ہے لیکن عالمی رہنماؤں، خاص طور پر جی سیون ممالک کی عدم موجودگی برطانیہ میں ہونے والے اس سربراہی اجلاس کے مباحثے میں غالب رہی ہے۔
رشی سونک کے ترجمان نے زور دے کر کہا ’موزوں ممالک کا گروپ، موزوں کمپنیاں‘ موجود ہوں گے۔
چین موجود ہوگا، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ کس سطح پر۔
مغربی ممالک کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی اور تکنیکی جاسوسی کے الزامات کے دوران بیجنگ کو دعوت نامہ بھجوانا باعث حیرت ہے۔
رشی سونک نے کہا ہے ’مصنوعی ذہانت میں دنیا کی کم از کم تمام سرکردہ طاقتوں کو شامل کرنے کی کوشش کیے بغیر مصنوعی ذہانت کے متعلق کوئی سنجیدہ حکمت عملی نہیں بن سکتی۔‘
برطانیہ اگرچہ خود کو مصنوعی ذہانت پر بین الاقوامی تعاون کے پیچھے محرک قوت کے طور پر دیکھتا ہے، لیکن ممکنہ تباہیوں پر اس کے دباؤ نے اس شعبے کے کچھ کھلاڑیوں کو مایوس کیا ہے۔
وہ رشی سونک کے اظہار کردہ زیادہ خطرے کی بجائے موجودہ مصنوعی ذہانت کے مسائل پر زور دینے کو ترجیح دیں گے، جیسا کہ کمپنیوں کے ڈیزائن کردہ ماڈلز میں شفافیت کی کمی اور ان کے نسلی یا صنفی تعصب۔
اعتراض کرنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ برطانیہ جو مشترکہ اخلاقی اصول قائم کرنا چاہتا ہے وہ مصنوعی ذہانت کی تجربہ گاہوں اور ٹیکنالوجی کمپنیوں کے، جو کہ زیادہ تر چینی اور امریکی ہیں، مفادات مخالف بھی ہوسکتے ہیں۔
اس سے رواں ہفتے کے سربراہ اجلاس سے کوئی بھی معنی خیز چیز سامنے آنے کے امکانات محدود ہوسکتے ہیں۔
امپیریل کالج لندن کے شعبہ کمپیوٹنگ میں ہیومن سینٹرڈ سسٹم کے پروفیسر حمید حددی کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت پر عالمی ’مکالمے‘ کا یہ صحیح وقت ہے۔
انہوں نے کہا، ’کیا ہمیں اس سپیس میں ریگولیشن کی ضرورت ہے؟ یا ہم اسے مارکیٹ اور کمپنیوں کے حوالے کر دیں اور دیکھیں کہ آگے کیا کیا ہوتا ہے؟‘